ریکارڈ توڑ نمبروں کا سہرا کس کے سر: طلباء، کورونا یا حکومت؟
عبدالستار
یہ بھی ممکن ہوا کہ کسی طالب علم نے تمام سبجیکٹ میں پورے کے پورے نمبرز لے لئے، اس کا سہرا کرونا وباء یا حکومتی فیصلوں کو جاتا ہے۔ گزشتہ کئی دنوں سے میڈیا اور سوشل میڈیا پر روزانہ کسی نہ کسی تعلیمی بورڈ کے نتائج پر گرما گرم بحث ہوتی ہے کہ فلاں بورڈ نے میٹرک یا انٹرامتحان میں 1098 اور کسی نے 1096 نمبرز دے کر بورڈ میں پہلی پوزیشن دی لیکن جب 21 ستمبر کو مردان تعلیمی بورڈ نے میٹرک کی طالبہ قندیل کا رزلٹ سنا کر گیارہ سو میں سے گیارہ سو نمبر لے کر پہلی پوزیشن کا اعلان کر دیا تو ایک اور بحث چھڑ گئی کہ صوبے کی تاریخ میں پہلے کھبی کسی نے نہیں سنا تھا اس کے باوجود کہ اکوڑہ خٹک کے گاؤں مصری بانڈہ سے تعلق رکھنے والی یتیم بچی قندیل ایک ہونہار طالبہ ہے اور ان کی امی، جو کہ سرکاری سکول میں استاد ہیں، کے مطابق قندیل مطالعہ کی شوقین ہے، پندرہ گھنٹے تک پڑھائی کرتی تھی جبکہ وہ ایک اچھی سکیچنگ اور ڈرائینگ آرٹ کے ساتھ اچھی سنگنگ بھی کرتی ہے اور شاعری کے ساتھ اچھی ڈائری بھی لکھتی ہے۔
پورے نمبرز دینے کے حوالے سے جب بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن مردان کے چیئرمین امتیاز ایوب سے پوچھا گیا کہ یہ کس طرح ممکن ہوا تو ان کا کہنا تھا کہ حکومتی فیصلے کے مطابق مارکنگ ہوئی ہے اور جو فارمولا حکومت نے دیا تھا اس کی وجہ سے ہی طالب علموں کو اتنے زیادہ نمبرز ملے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کرونا وباء کی وجہ سے میٹرک اور انٹر کے امتحانات کے حوالے سے فیڈرل ایجوکیشن منسٹر کی جانب سے مسلسل فیصلے آتے رہے اور انہی پر بورڈ انتطامیہ نے عمل کیا۔
انہوں نے کہا، ”حکومت کا فیصلہ آیا کہ چار اختیاری مضامین میں امتحان لینا ہے اور ان نمبروں کے برابر لازمی مضامین میں نمبرز دینے ہیں جبکہ اس کے بعد پانچ فیصد اضافی نمبر بھی ان کے ساتھ جمع کرنے ہیں جس کی خیبر پختونخوا کے بورڈز نے مخالفت بھی کی کیونکہ ہمیں پتہ تھا کہ بچے اختیاری مضامین میں فل نمبرز بھی لیتے ہیں او راس سے پہلے امتحانات میں طالب علموں نے ان اختیاری مضامین میں سو میں سے سو نمبرز لئے بھی ہیں جبکہ اکثر بچوں کے لازمی مضامین میں نمبرز کم ہو جاتے ہیں۔”
امتیاز ایوب نے کہا کہ جس بچی نے گیارہ سو میں سے گیارہ سو نمبرز لئے تو انہوں نے اضافی پانچ فیصد کے ساتھ گیارہ سو نمبرز لئے ہیں ان کے اپنے پیپرز کے نمبرز گیارہ سو نہیں تھے لیکن جب ان کے پرچوں کے ٹوٹل حاصل کئے گئے نمبروں کے ساتھ حکومتی فیصلے کے مطابق پانچ فیصد نمبرز مزید جمع کئے گئے تو ان کے نمبرز گیارہ سو ہو گئے۔
انہوں نے کہا ”طلباء فزکس کیمسٹری، میتھس اور بائیولوجی (الیکیٹیو سبجیکٹس) میں سو کے قریب یا سو نمبرز بھی لیتے ہیں اور فیصلے کے مطابق جتنے نمبرز ان میں لئے اس کے برابر لازمی مضامیں اسلامیات، اردو، انگلس اور مطالعہ پاکستان میں بھی دیئے گئے اور جب اس کے ساتھ اضافی پانچ فیصدجمع کئے جائیں تو پھر اس طرح ہی کے رزلٹ آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کرونا وباء سے پہلے 2017،2018 اور 2019 کے ریکارڈ کے مطابق اختیاری سائنس سبجیکٹ میں طلباء سو میں سے سو نمبرز حاصل کر چکے ہیں۔
امتیاز ایوب نے کہا کہ میں نے ہر فورم میں اس فارمولے کے خلاف آواز اٹھائی جبکہ صوبائی سیکرٹری ایجوکیشن کے زریعے فیڈرل سیکرٹری ایجوکیشن تک بات پہنچائی کہ اس فیصلے سے یہ صورتحال پیدا ہو سکتی ہے لیکن وہ بھی نہیں مانے۔
مردان تعلیمی بورڈ میں سٹوڈنٹس فیسیلیٹیشن سنٹر کی افتتاحی تقریب میں شرکت لئے آئے ہوئے خیبر پختوخوا کے مختلف تعلیمی بورڈز کے چیئرمینوں، جن میں ایبٹ آباد بورڈ، بنوں بورڈ، سوات بورڈ اور آئی بی سی سی کے چیئرمین موجود تھے، نے مشترکہ طور پر کہا کہ حکومت کے اس فیصلے سے کہ صرف اختیاری مضامین میں امتحان لینا اور پانچ فیصد نمبرز اضافی دینے سے ہم متفق نہیں تھے کیونکہ ہمیں اندازہ تھا کہ رزلٹ اس طرح آئیں گے لیکن وفاقی حکومت نے کسی بھی فیصلے میں بورڈز کے ساتھ مشاورت نہیں کی اور اپنے فیصلے منوائے گئے جبکہ خیبر پختونخوا کے تمام بورڈز چیئرمین بشمول فیڈرل بورڈ نے پانچ فیصد اضافی نمبرز دینے کی مخالفت کی تھی لیکن وفاقی محکمہ تعلیم نے کسی کا بھی نہیں مانا اور فیصلہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ ملک کی سطح پر انٹربورڈ چیئرمین کمیٹی موجود ہے لیکن اسے کوئی نہیں پوچھتا، حکومت کو چاہیے کہ فیصلہ کرنے سے پہلے اس سے سفارشات طلب کر لیا کرے تو بہتر فیصلہ سازی ممکن ہو سکے گی۔
مختلف بورڈز کے چیئرمینوں نے یہ بھی بتایا کہ بار بار حکومتی فیصلے تبدیل ہونے سے تعلیمی بورڈز بھی مشکلات کے شکار تھے کہ پہلے فیصلہ تھا کہ سارے پیپرز لئے جائیں گے جس کے لئے ڈیٹ شیٹ تک تیار کی گئی تھی جبکہ بعد میں کہا گیا کہ صرف چار اختیاری مضامین میں امتحان لینا ہے جس کے بعد فیصلہ آیا کہ اضافی پانچ فیصد نمبرز بھی دینے ہیں اور جب رزلٹ ایک مرتبہ تیار ہوا تو ایک اور فیصلہ آیا کہ سارے طلبہ کو 33 فیصد کے ساتھ پاس کرو تو پھر دوبارہ رزلٹ تیار کرنا پڑا۔
غیرمتوقع زیادہ نمبرات حاصل کرنے پر صوبائی حکومت کے وزیر تعلیم نے انکوائری کے لئے آٹھ رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے اور کمیٹی پتہ لگائے گی کہ کیا طالب علموں نے حاصل کردہ نمبرز درست لئے ہیں یا کہیں پر غفلت ہوئی ہے۔
واضح رہے کہ خیبر پختونخوا حکومت نے تعلیمی بورڈز کے نتائج میں طلبہ کے ریکارڈ توڑ نمبرز لینے کی تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے۔