چارسدہ میں پولیس کا مبینہ ظلم، بچہ جننے والی ماں کو بھی نہ بخشا
سرڈھیری پولیس کی "کارروائی" نے ظلم و جبر کی ایک ایسی داستان رقم کی ہے جو شاید رہتی دنیا تک ایک ماں کے دل سے نہ مٹے۔

رفاقت اللہ رزڑوال
خیبرپختونخوا کے پرامن ضلع چارسدہ میں پولیس کی ایک کارروائی نے قانون، انسانیت، اسلام اور پشتونولی کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ سرڈھیری پولیس نے ظلم و جبر کی ایک ایسی داستان رقم کی ہے جو شاید رہتی دنیا تک ایک ماں کے دل سے نہ مٹے۔
واقعہ سرڈھیری علاقے کے رہائشی آدم خان کے ساتھ پیش آیا جنہوں نے بدھ کے روز چارسدہ پریس کلب میں نم آنکھوں کے ساتھ لرزتی آواز میں اذیت ناک مناظر بیان کیے۔
آدم خان کے مطابق گزشتہ ہفتے پولیس نے ان کے گھر پر دو بار چھاپہ مارا۔ پہلی بار 9 جولائی کو پولیس نے ان کی غیرموجودگی میں گھر میں گھس کر توڑ پھوڑ کی اور واپس چلے گئے۔ مگر ظلم کی انتہا اس وقت ہوئی جب دوسری کارروائی 14 جولائی کو صبح کے وقت کی گئی۔
آدم خان کے مطابق "میری بہو نے دو گھنٹے قبل ہی میرے نواسے کو جنم دیا تھا۔ وہ پس زچگی شدید کمزوری میں مبتلا بستر پر تھی، ماں بنی تھی، تکلیف میں تھی مگر پولیس اہلکاروں نے اس کا کمبل کھینچ کر اسے نیم برہنہ کر دیا۔ چادر اور چاردیواری تو پامال ہوئی ہی، مگر اس معصوم ماں کی عزت بھی روند ڈالی گئی۔ وہ لمحہ نہ صرف میری بہو اور میرے لئے تذلیل تھی، بلکہ پوری انسانیت کی توہین تھی۔”
آدم خان نے یہ بھی انکشاف کیا "پولیس اہلکار گھر سے قیمتی سامان جیسے بیٹریاں، فریج اور یہاں تک کہ ان کی ماں کی نشانی کے طور پر رکھا گیا ایک تولہ سونا بھی لے گئے۔ مزاحمت کرنے پر انہیں نہ صرف تشدد کا نشانہ بنایا گیا بلکہ کرش اور بجری کے ڈھیر میں گھسیٹا گیا، ان کے جسم پر زخموں کے نشانات آج بھی موجود ہیں۔”
بدترین سلوک کے بعد انہیں حوالات میں بند کر دیا گیا، تاہم عدالت نے انہیں باعزت طور پر رہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے پولیس کے رویے پر برہمی کا اظہار بھی کیا۔
دوسری جانب تھانہ سرڈھیری کے ایس ایچ او واجد خان نے تمام الزامات کو رد کرتے ہوئے آدم خان کے خاندان کو "خاندانی چور” قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کارروائی قانون اور روایات کے مطابق کی گئی۔
ایس ایچ واجد خان نے بتایا کہ آدم خان کے بیٹے پر چوری کا الزام تھا اور چوروں کو پکڑنے کے بعد جب انوسٹی گیٹ کیا تو ان کے تانے بانے انکے بیٹے حبیب کے ساتھ مل رہے تھے۔
ایس ایچ او واجد خان کہتے ہیں "ہم مسلمان ہیں، پشتون ہیں، کیسے ہم خواتین کی بے عزتی کرسکتے ہیں؟ آدم خان جھوٹ بول رہے ہیں، یہ خاندانی چور ہیں۔”
انہوں نے بتایا کہ گھر سے اُٹھائی گئی سامان کو پولیس نے ریکارڈ پر لیا ہے اور عدالتی حکم کے بعد اسے گھر کے افراد کے حوالہ کیا جائے گا۔
تاہم پولیس سے جب ریکارڈ پر لی گئی سامان کی ریکارڈ فراہم کرنے کا کہا گیا تو ایس ایچ او نے بتایا کہ وہ ابھی تھانے سے باہر ہے اور پہنچنے پر آپ کے ساتھ ڈاکومنٹس شریک کئے جائیں گے لیکن سٹوری لکھنے تک کوئی ڈاکیومنٹس شئیر نہیں کئے گئے۔
یاد رہے کہ چارسدہ میں پولیس کی جانب سے چادر و چاردیواری کی پامالی کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی متعدد ایسی شکایات سامنے آ چکی ہیں جن میں خواتین کی تذلیل، گھریلو اشیاء کی توڑ پھوڑ اور غیرقانونی طور پر سامان لے جانے کی رپورٹس منظر عام پر آ چکی ہیں۔