چارسدہ: دہشتگردوں کے مبینہ تین سہولتکار گرفتار، بھاری اسلحہ برآمد

رفاقت اللہ رزڑوال
ضلع چارسدہ پولیس نے ایک اہم کارروائی کے دوران تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے وابستہ تین مبینہ سہولت کاروں کو بھاری ہتھیاروں سمیت گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
یہ گرفتاری تحصیل شبقدر کے علاقے کونڑا خوڑ میں جمعہ کے دن علی الصبح کی گئی، جہاں تھانہ سرو پولیس نے اچانک چھاپہ مار کر ملزمان کو حراست میں لیا۔
ان کے قبضے سے چار راکٹ گولے، راکٹ لانچر اسٹینڈ، آر پی جی 7 کے پانچ گولے، آٹھ دستی بم، ایک لائٹ مشین گن (ایل ایم جی)، ارٹلری شیل اور تیس فٹ لمبی پرائما کارڈ برآمد کی گئی۔
جمعہ کے دن چارسدہ پولیس کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (انوسٹی گیس) سجاد خان نے ایک پریس کانفرنس کے دوران دعویٰ کیا کہ گرفتار افراد کا تعلق افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی قیادت سے ہے اور وہ صوبے کے اندر دہشتگردانہ کارروائیوں کے لیے ہتھیار منتقل کرنے میں سہولت کار کا کردار ادا کر رہے تھے۔
ایس پی سجاد خان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان افراد نے افغانستان میں طالبان کے ساتھ "شرعی نظام” کے نفاذ کے لیے مبینہ طور پر جہاد میں بھی حصہ لیا تھا، اور اب پاکستان منتقل ہوکر یہاں ایسی ہی کارروائیوں کی تیاری کر رہے تھے۔
اگرچہ پولیس نے یہ کارروائی بڑے پیمانے پر کامیاب قرار دی، لیکن حیرت انگیز طور پر پریس کانفرنس کے دوران اس کی مکمل تفصیلات دینے سے گریز کیا گیا۔
جب صحافیوں نے پوچھا کہ صرف ایک دن میں ملزمان کی گرفتاری اور اسی دن اتنی بھاری مقدار میں اسلحے کی برآمدگی کیسے ممکن ہوئی، تو ایس پی نے مختصر سا جواب دیا کہ "مزید تفتیش جاری ہے، تفصیلات بعد میں سامنے آئیں گی”۔ اس ردعمل نے کارروائی کی شفافیت پر سوالات اٹھا دیے، اور یوں محسوس ہوا جیسے پولیس کے پاس مکمل معلومات موجود نہیں یا وہ انہیں فی الحال منظر عام پر لانے سے گریزاں ہے۔
پولیس کی یہ خاموشی ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ملک بھر میں دہشت گردی کی لہر تیزی سے دوبارہ سر اٹھا رہی ہے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ برائے تنازعہ و سلامتی (PICSS) کی 4 اپریل 2025 کو جاری کردہ رپورٹ کے مطابق، مارچ کے مہینے میں ملک میں 228 دہشت گرد حملے ہوئے جن میں 73 سیکیورٹی اہلکار، 67 عام شہری اور 88 شدت پسند مارے گئے۔
رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ خیبرپختونخوا رہا جہاں ٹی ٹی پی اور دیگر کالعدم تنظیموں نے خاص طور پر جنوبی اضلاع، قبائلی علاقوں، پشاور اور چارسدہ میں کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد ٹی ٹی پی کو نہ صرف اخلاقی بلکہ عملی حمایت بھی ملی ہے جس نے پاکستان میں ان کی کارروائیوں کو تقویت دی ہے۔
دہشت گردی پر نظر رکھنے والے صحافی ارشد مومند کے مطابق، ان علاقوں میں کالعدم تنظیموں کی منظم موجودگی کی رپورٹس موجود ہیں، اور شدت پسند عناصر نے دوبارہ قدم جمانا شروع کر دیئے ہیں۔
ارشد مومند کے خیال میں چارسدہ پولیس کی حالیہ کارروائی بلاشبہ اہم ہے، لیکن عوامی سطح پر معلومات کی فراہمی میں تاخیر یا ہچکچاہٹ ریاستی بیانیے کو کمزور کرتی ہے۔
ان کے مطابق "ایسی صورتحال میں معلومات کی شفاف فراہمی اسی قدر ضروری ہے جتنی انسانی جسم کے لیے آکسیجن۔ کیونکہ صرف بندوق یا گولی دہشتگردی کا مکمل جواب نہیں، اصل جنگ بیانیے کی بھی ہے، جو صرف تب جیتی جا سکتی ہے جب عوام کو بروقت اور درست معلومات فراہم کی جائیں۔”