"مرد جب ٹینشن میں ہوتا ہے تو غصہ خواتین پر نکالتا ہے”

خالدہ نیاز
خیبر پختونخوا میں خواتین کے خلاف تشدد کا سلسلہ تھم نہ سکا۔ پولیس کے مطابق خیبرپختونخوا میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران تین خواتین کو قتل کیا گیا۔ دو خواتین کو پشاور جبکہ ایک کو مردان میں قتل کیا گیا۔ پشاور شاہ پور تھانہ پولیس کے مطابق توصیف بی بی ایک خاتون پولیس اہلکار تھی، جو ضلع چارسدہ میں تعینات تھی، گزشتہ کچھ عرصے سے خاوند سے خفا ہو کر میکے آگئی تھی اور ان کا کیس عدالت میں چل رہا تھا۔ 26 اپریل کو عدالتی حکم پر بیلف کے ساتھ چارسدہ میں واقع شوہر کے گھر سامان لینے گئی واپسی پر پشاور میں ان کو فائرنگ کر کے قتل کیا گیا۔
توصیف بی بی کے بھائی نے اس کے شوہر کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔ اس کے علاوہ 25 اپریل کو پشاور میں ایک خاتون ٹک ٹاکر کو بھی قتل کیا گیا۔ تھانہ فقیر آباد میں درج رپورٹ کے مطابق ٹک ٹاکر جنت بی بی کو دلہ زاک روڈ پہ اس وقت فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا جب وہ اپنی دوسری بہن چاہت بی بی کے ہمراہ شاپنگ کے لیے جا رہی تھی۔ ایف آئی آر کے مطابق جنت بی بی کو عبد اللہ نامی شخص نے دوستی سے انکار پر قتل کیا ہے۔ دوسری جانب 23 اپریل کو مردان میں بھی ایک شخص نے اپنی بیوی کو گھریلو ناچاقی پر قتل کردیا۔ پولیس کے مطابق یہ واقعہ ہاتھیان علاقے میں پیش آیا۔
"مرد جب ٹینشن میں ہوتا ہے تو غصہ خواتین پر نکالتا ہے”
صائمہ منیر، جن کا تعلق خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم سے ہے، کا کہنا ہے کہ غربت، بے روزگاری، مہنگائی اور نشہ وہ چند وجوہات ہیں جس کی وجہ سے خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ صائمہ منیر بتاتی ہیں بعض کیسز میں خواتین کو قتل بھی کر دیا جاتا ہے۔ تشدد میں کمی کے حوالے سے صائمہ منیر نے بتایا کہ گھریلو تشدد کے قانون پر صحیح عمل درآمد سے ہی ان کیسز میں کمی لائی جاسکتی ہے۔
"یہاں بہت ناقص قانون سازی ہوئی ہے دوسری اہم بات یہ ہے جو قانون بنایا گیا ہے اس پہ عمل درآمد بھی نہیں ہورہا۔ خواتین کو معاشرتی طور پر بھیڑ بکری کی طرح رکھا گیا ہے، لہذا جب بھی مرد ٹینشن میں ہوتا ہے تو وہ سارا غصہ خواتین پر نکالتا ہے، تشدد کرتا ہے اور قتل بھی کر دیتا ہے۔ ضروری یہ ہے کہ خواتین کو اس قانون کے بارے میں آگاہی ہو، اس کے ساتھ ریاستی اداروں کو چاہیئے کہ وہ اس معاملے کو گھریلو تصور کرنے کی بجائے گھریلو تشدد سمجھے اور اسکے خلاف اقدام اٹھانے کے لیے سنجیدہ ہو جائے” صائمہ منیر نے بتایا۔
سال 2024 خواتین کے لیے کیسا رہا؟
پائیدار سماجی ترقی تنظیم ایس ایس ڈی او نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے سال 2024ء میں ملک بھر میں صنفی بنیاد پر تشدد کے 32,617 کیسز رپورٹ ہوئے۔ ان میں 5,339 عصمت دری، 24,439 اغوا، 2,238 گھریلو تشدد اور 547 غیرت کے نام پر قتل کے واقعات شامل ہیں۔ اس کے باوجود، تمام صوبوں میں سزا کی شرح تشویشناک حد تک کم ہے۔ عصمت دری اور غیرت کے نام پر قتل کے مقدمات میں سزا کی قومی شرح صرف 0.5% ہے، اغوا کے کیسز میں سزا کی شرح 0.1%، جبکہ گھریلو تشدد کے کیسز میں سزا کی شرح 1.3% ہے۔ رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا میں 3,397 کیسز رپورٹ ہوئے۔ غیرت کے نام پر قتل کے 134 کیسز درج کئے گئے، جن میں صرف 2 سزا سنائی گئی۔ عصمت دری کے 258 کیسز میں سے صرف 1 مجرم کو سزا دی گئی۔ اغوا کے 943 کیسز میں صرف 1 ملزم کو سزا ملی۔ گھریلو تشدد کے 446 کیسز درج ہوئے، لیکن کوئی بھی مجرم سزا نہ پا سکا۔
خواتین کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے
ضلع مردان چمتار کی تحصیل ممبر اور سماجی کارکن زیب النساء نے اس حوالے سے بتایا خواتین پر نہ صرف جسمانی تشدد ہوتا ہے بلکہ انکو نفسیاتی طور پر بھی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ زیب النساء کے مطابق گھریلو تشدد کے قانون کے حوالے سے خواتین میں آگاہی کا فقدان ہے۔ انکے مطابق خواتین کے حقوق کا خیال نہیں رکھا جاتا اور جو خواتین دوسری خواتین کے لیے آواز اٹھاتی ہیں ان کے آواز کو بھی دبایا جاتا ہے۔
"خواتین سارا دن گھروں میں کام کرتی ہیں لیکن جب انکی طبیعت خراب ہوتی ہیں تو انکو آرام کا موقع بھی نہیں دیا جاتا انکی صحت کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ ایک المیہ یہ بھی ہے جب کوئی خاتون ان خواتین کی آواز بنتی ہیں تو اس کو بھی ڈرایا دھمکایا جاتا ہے”
نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کی جانب سے 2024 میں جاری رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خواتین کی بڑی تعداد گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق47 فیصد پاکستانی خواتین گھریلو تشدد کا سامنا کرتی ہیں اور یہ سلسلہ شادی کے بعد بھی چلتا رہتا ہے جس کا اکثر خاتمہ طلاق پر ہی ہوتا ہے۔
گھریلو تشدد کا قانون کیا ہے؟
پشاور ہائی کورٹ کی وکیل زینب افتخار کے مطابق خیبرپختونخوا میں خواتین پر تشدد کے روک تھام کے لیے 2021 میں قانون بنایا گیا ہے۔ وہ کہتی ہیں اگر ایک خاتون پر تشدد ہوتا ہے تو وہ عدالت کا دروازہ کھکٹھا سکتی ہے۔ انکے مطابق خیبرپختونخوا میں انہوں نے دیکھا ہے زیادہ تر کیسز ایسے ہوتے ہیں جہاں مرد کوئی کام کاج نہیں کرتا اس وجہ سے معاشی مسائل جنم لیتے ہیں اور گھریلو تشدد شروع ہو جاتا ہے۔
زینب افتخار نے بتایا اگر ایک خاتون عدالت میں گھریلو تشدد ثابت کرتی ہیں تو تشدد کرنے والے شخص کو 5 سال قید اور 3 لاکھ روپے تک سزا دی جاسکتی ہے۔ بل کے مطابق گھریلو تشدد کے کیسز کو 2 مہینوں میں نمٹانے کے ہدایات دی گئی ہیں۔
خیال رہے لاہور ہائیکورٹ نے حال ہی میں خلع لینے والی خواتین کو حق مہر کا حقدار قرار دیا ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ حق مہر کی رقم خاتون کے لیے سیکیورٹی تصور کی جاسکتی ہے، اگر خاوند کا رویہ خاتون کو خلع لینے پر مجبور کرے تو وہ حق مہر لینے کی مکمل حقدار ہے۔
قانونی ماہرین اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں اس بات پر زور دیتی ہے کہ گھریلو تشدد کے خاتمے کے لیے ضروری ہے قانون پر صحیح عمل درآمد کیا جائے، خواتین کو قانون کے حوالے سے آگاہی دی جائے اور تفتیش کے نظام میں بہتری لانے کے ساتھ ساتھ خواتین کے حوالے سے معاشرتی روئیوں میں تبدیلی لائی جائے۔