جرائمعوام کی آواز

سپین کشتی حادثہ: بہتر زندگی کا خواب دیکھنے والے ضلع خیبر کے ولی اور اجمل شاید ‘ابدی نیند’ سو گئے

مغربی افریقہ سے کشتی کے ذریعے سپین پہنچنے کی کوشش کے دوران 50 تارکین وطن ڈوب کر ہلاک ہوئے جن میں سے 44 پاکستانی تھے۔ کشتی میں سوار پاکستانیوں میں دو کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر سے تھا، 20 سالہ اجمل اور 38 سالہ ولی محمد اب بھی لاپتہ ہیں۔ واکنگ بارڈرز

یورپ کے ملک سپین جانے والی تارکین وطن کی کشتی جو مراکش کی سمندری حدود میں حادثے کا شکار ہو گئی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق کشتی میں 86 تارکین وطن سوار تھے۔ غیرملکی خبررساں ادارے ”رائٹرز“ کے مطابق تارکین وطن کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم واکنگ بارڈرز نے کہا ہے کہ مغربی افریقہ سے کشتی کے ذریعے سپین پہنچنے کی کوشش کے دوران 50 تارکین وطن ڈوب کر ہلاک ہوئے جن میں سے 44 پاکستانی تھے۔ کشتی میں سوار پاکستانیوں میں دو کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر سے تھا، 20 سالہ اجمل اور 38 سالہ ولی محمد اب بھی لاپتہ ہیں۔

زرائع کے مطابق دونوں افراد کو چند ماہ قبل ایجنٹ کے زریعے پہلے سعودی عرب لے جایا گیا جہاں پر عمرہ ادایئگی کے بعد انہیں مغربی افریقی ملک مریطانیہ پہنچایا گیا۔ کشتی حادثہ میں لاپتہ ولی محمد کے بھائی عبدالطیف نے ٹی این این کو بتایا کہ ان کا بھائی کئی ماہ پہلے یورپ کے سفر پر گھر سے روانہ ہوا تھا لیکن انہیں کوئی خبر نہیں تھی: "دو جنوری کو بھائی نے موریطانیہ سے رابطہ کر کے بتایا کہ ہم کشتی کے زریعے سپین کے لئے روزنہ ہو چکے ہیں کچھ دن بعد میڈیا کے زریعے معلوم ہوا کہ کشتی کو حادثہ پیش آیا ہے جس میں کئی افراد جاں بحق جبکہ کچھ بچ گئے ہیں۔”

وہ اپنے بھائی کے زندہ یا مردہ ہونے کے حوالے سے رابطے کر رہے ہیں لیکن تاحال انہیں کوئی خبر موصول نہیں ہوئی۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان کے بھائی کے حوالے سے معلومات کی فراہمی میں مدد فراہم کرے۔

یہ بھی پڑھیں: خیبر: تیراہ میں فورسز کا آپریشن؛ 5 دہشت گرد مارے گئے

خیبر کی تحصیل جمرود کے علاقے غنڈی سے تعلق رکھنے والے ولی محمد شادی شدہ اور پانچ بچوں کا باپ ہے جن میں تین بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔ اس کے بھائی کے مطابق اکے علاقے اور گھر میں فضا سگوار ہے جبکہ علاقے کے لوگ بھی ان کے بھائی کی خیر خبر لینے آ رہے ہیں۔

جمرود کے علاقے غاڑیزہ کے 20 سالہ اجمل بھی بہتر مستقبل کی تلاش میں یورپ کے لئے گھر سے نکلا تھا۔ اس کے والد خان فراز نے ٹی این این کو بتایا کہ بنا پوچھے اجمل گھر سے اسپین کے لئے نکلا تھا۔ اجمل ہر کسی کو کہتا تھا کہ وہ یورپ جائے گا اور آخرکار گھر سے نکل بھی گیا: "افریقی ملک موریطانیہ پہنچنے پر بیٹے نے رابطہ کر کے بتایا کہ وہ سپین کے قریب ہے؛ ایجنٹ پیسے مانگ رہا رہے تاکہ آگے بڑھ سکے تو یہ سوچٓ کر کہ بیٹا اتنا دور نکل چکا ہے اور یورپ جانا چاہتا ہے تو ایجنٹ کے کہنے پر 15 لاکھ روپیہ ایڈوانس بھیجے۔ کئی دفعہ پولیس نے ان کو پکڑا بھی لیکن ہر بار ایجنٹ نے انہیں چھڑوایا بھی۔ آخرکار 2 جنوری کو اجمل ساتھیوں سمیت کشتی میں سوار ہوا اور کشتی موریطانیہ سے اسپین کے جزیرے الہیرو کی جانب روانہ ہوئی۔ تین چار دن بعد ایجنٹ کے ساتھ رابطہ کیا اور لوکیشن کے بارے میں دریافت کیا لیکن ایجنٹ نے جواب دیا کہ انہیں لوکیشن کا خود بھی پتہ نہیں۔ 13 سے 14 دن بعد مجھے میڈیا کے زریعے معلوم ہوا کہ بندے 13 دنوں سے محصور ہین اور آٹھ دنوں سے انہیں کوئی خوراک نہیں مل رہی۔ کشتی میں بہت سے لوگ بھوک اور پیاس کی وجہ سے مر گئے تھے۔”

اجمل کے ولد نے مزید بتایا کہ کشتی میں افریقی باشندوں نے ان کے ساتھ لڑائی کی جنہوں نے کئی مسافروں کو مار کر سمند میں پھینکا۔ ان کی معلومات کے مطابق 66 پاکستانی کشتی میں سوار تھے جن میں 44 افرد جاں بحق ہوئے جبکہ 22 افراد نے کشتی سے چھلانگ لگائی۔ انہیں ماہگیروں نے بچا کر مراکش منتقل کر دیا اور اب ہسپتال میں زیرعلاج ہیں: "لیکن ہمارا ملک بہت کمزور ہے۔ 11 جنوری سے تاحال سمندر میں کشتی موجود ہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اب ہماری تسلی اس وقت ہو گی جب بیٹا زندہ ہو یا اس کی لاش مل جائے۔

تارکین وطن کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم واکنگ بارڈرز کے مطابق سال 2024 کے دوران ریکارڈ 10 ہزار 457 تارکین وطن اسپین پہنچنے کی کوشش میں ہلاک ہوئے۔ زیادہ تر مغربی افریقی ممالک جیسے موریطانیہ اور سینیگال سے کینری جزائر تک بحر اوقیانوس کے راستے کو عبور کرنے کی کوشش کے دوران ہلاک ہوئے۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال دسمبر میں یونان کے جنوبی جزیرے گاوڈوس کے قریب کشتی الٹنے کے بعد متعدد تارکین وطن ڈوب کر ہلاک جب کہ کئی لاپتہ ہو گئے تھے جن میں بڑی تعداد پاکستانیوں کی بھی شامل تھی۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے انسانی اسمگلنگ سے متعلق جاری تحقیقات جلد از جلد مکمل کر کے ٹھوس سفارشات پیش کرنے، سہولت کاری میں ملوث وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے اہلکاروں کی نشاندہی اور ان کے خلاف سخت کارروائی اور اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے متعلقہ اداروں کو آپس میں رابطے مزید بہتر بنانے کی ہدایت کی ہے۔

Show More
Back to top button