چار لاکھ روپے میں بارہ تیرہ سالہ بیٹی برائے فروخت!
بچی کا خاندان کئی دہائیوں سے علاقے میں مقیم ہے اور حجام ہیں، لیکن معاشی مشکلات کی وجہ سے پیسوں کے عوض یہ باپ اپنی بچی کی شادی پنجاب کے رہائشی سے کرانے پر آمادہ تھا۔
مردان انتظامیہ نے تحصیل کاٹلنگ میں ایک کم عمر بچی کی شادی رکوا کر اُس کے باپ، اور موقع پر موجود دیگر افراد کو گرفتار کر کے ان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔ انتظامیہ کو زرائع سے معلوم ہوا کہ علاقہ لنڈے شاہ میں کم عمر بچی مسکان جس کی عمر بارہ تیرہ سال بتائی گئی، اس کی شادی ٹیکسلا کے رہائشی سے ہو رہی ہے، اور لڑکی کے والد نے بچی کے عوض چار لاکھ روپے لئے ہیں۔
اے اے سی کاٹلنگ، سحر انور، نے چائلڈ پروٹیکشن یونٹ اور پولیس تھانہ کاٹلنگ کے عملے کے ہمراہ چھاپہ مارا اور بچی کو گھر سے برآمد کر کے نکاح کی تقریب میں شامل تمام افراد اور بچی کے والد کو گرفتار کر کے ان کے خلاف چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر لیا۔ سحر انور کے مطابق بچی کو جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا؛ عدالت نے بچی کی عمر کے تعین کے لئےمیڈیکل چیک اپ کرنے کی ہدایت کی اور متاثرہ بچی کو دارالامان مردان بھیجنے کا حکم جاری کیا۔
علاقہ لنڈے شاہ کے رہائشی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بچی کو ٹیکسلا کے شہری کے ہاتھ پیسوں کے عوض فروخت کرنے کی وجہ غربت ہے۔ بچی کا خاندان کئی دہائیوں سے علاقے میں مقیم ہے اور حجام ہیں، لیکن معاشی مشکلات کی وجہ سے پیسوں کے عوض یہ باپ اپنی بچی کی شادی پنجاب کے رہائشی سے کرانے پر آمادہ تھا۔
خیبر پختونخوا میں بچوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والے سماجی کارکن عمران ٹکر نے اس حوالے سے بتایا کہ ایک عرصے سے خیبر پختونخوا میں پیسوں کے عوض بچیوں کو پنجاب میں بیاہنے کی روایت چلی آ رہی ہے جو کہ ایک غیرقانونی فعل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کم عمری کی شادی ایک سماجی مسئلہ بن چکی ہے جس سے سماجی مسائل جنم لیتے ہیں۔ تعلیم 5 سے لے کر 16 سال تک کے ہر بچے کا بنیادی حق ہے جبکہ کم عمری کی شادی بچوں سے تعلیم کا حق چین لیتی ہے؛ ماں اور بچوں کئی طرح کی بیماریاں جنم لیتی ہیں، اور حمل و زچگی کے دوران ماں اور بچے کی موت کا سب سے بڑا سبب بھی یہی کم سنی کی شادی بتایا جاتا ہے۔
عمران ٹکر کے مطابق پاکستان میں کم عمری کی شادی کی شرح 21 فیصد ہے۔ماہرین کے مطابق خیبر پختونخوا میں 15 سال سے کم عمر کی لڑکیوں کی شادی کی شرح 5 اعشاریہ سات فیصد جبکہ ضم شدہ اضلاع میں 7 اعشاریہ پانچ فیصد ہے۔ 18 سال سے قبل شادی کرنے والی لڑکیوں کی شرح خیبر پختونخوا میں 27 فیصد اور ضم شدہ اضلاع میں 35 فیصد ہے: "کم عمری کی شادی کے پیچھے سب سے بڑی وجہ غربت ہے۔ اس کے علاوہ جغرافیائی، سماجی و اقتصادی صورتحال اور تعلیم کی اہمیت و سہولیات کا فقدان بھی کم عمری کی شادیوں کی وجوہات میں شامل ہیں۔
ٹکر نے بتایا کہ پاکستان میں 1929 کا میریج رِسٹرینٹ ایکٹ ابھی تک رائج ہے جس میں لڑکی کے لیے شادی کی عمر 16 اور لڑکے کے لیے 18 سال ہے۔ جبکہ خلاف ورزی پر سزا ایک ہزار روپے جرمانہ اور ایک مہینے کی قید ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبائی سطح پر سب سے پہلے سندھ نے کم عمری کی شادی کی روک تھام کے لیے 2013 میں قانون سازی کی جس میں لڑکے اور لڑکی دونوں کے لیے کم سے کم عمر 18 سال رکھی گئی۔ خلاف ورزی پر والدین یا دیگر ذمہ داران کے لیے تین سال قید کی سزا مقرر کی گئی ہے جبکہ اسے ناقابل ضمانت جرم قرار دیا گیا ہے۔
پنجاب نے اس سلسلے میں 2015 میں قانون سازی کی جس کے تحت کم عمری کی شادی پر والدین اور دیگر افراد کو 6 ماہ قید اور 50 ہزار روپے تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔ لیکن خیبر پختونخوا، بلوچستان اور اسلام آباد میں کم عمری کی شادی کی روک تھام کے لیے آج تک کوئی قانون سازی نہیں کی گئی، جہاں آج بھی 1929 کا قانون نافذ ہے۔
خیبر پختونخوا میں اس حوالے سے 2014 میں ایک بل خیبر پختونخوا چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر کمیشن کے زیرنگرانی ڈرافٹ کیا گیا جس پر تمام طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے سٹیک ہولڈرز کو مشاورت اور رائے کے اظہار کا بھرپور موقع دیا گیا، تاہم یہ بل تاحال صوبائی اسمبلی سے منظوری کا منتظر ہے۔