حملہ خودکش تھا یا نہیں؟ چارسدہ دھماکہ ایک سوالیہ نشان بن گیا
پولیس کا کہنا ہے کہ وقوعہ سے قبل پولیس موبائل وین بھی گزری تھی مگر دیکھنا یہ ہے کہ واقعے کے پیچھے کون سے محرکات ہیں۔
چارسدہ پولیس کا کہنا ہے کہ جمعرات کی صبح موٹرسائیکل سوار نے مبینہ طور پر خود کو بارودی مواد سے اُڑا دیا مگر یہ واضح نہیں ہے کہ موٹرسائیکل سوار کا ہدف کیا تھا، اور وہ خودکش بمبار تھا بھی یا نہیں؟ وقوعہ سے قبل پولیس موبائل وین بھی گزری تھی مگر دیکھنا یہ ہے کہ واقعے کے پیچھے کون سے محرکات ہیں۔
مسعود بنگش، چارسدہ کے ضلعی پولیس افسر، نے جائے وقوعہ پر میڈٰیا کو بتایا کہ موٹرسائیکل سوار نے عمرزئی میں اخون ڈھیری کے مقام پر خود کو اُڑایا ہے جبکہ وہ مقامی ہے؛ اور تعلق عمرزئی سے ہے: "ابتدائی طور پر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ موٹرسائیکل پر ایک شخص سوار تھا جس کی جیب میں پیسے اور شناختی کارڈ تھا؛ عموماً خودکش حملہ آور کے پاس سے اس طرح کی چیزیں نہیں ملتیں لیکن یہ چیک کرنا پڑے گا کہ یہ کیا کرنے جا رہا تھا؟”
ڈی پی او مسعود بنگش کے مطابق پولیس، سی ٹی ڈی اور دیگر اینٹلی جنس ادارے موجود ہیں؛ ہلاک شخص کے گھر بھیجی گئی پولیس ٹیم کو بتایا گیا ہے کہ وہ دوائی لینے کے لئے گھر سے نکلا تھا: "مگر حتمی طور پر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اصل محرکات کیا ہیں؟”
یہ بھی پڑھیں: آج سے ملک کے بالائی علاقوں میں گرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان
دوسری جانب رپورٹس کے مطابق شمالی وزیرستان کے علاقے تپی میں بم دھماکہ ہوا ہے جس میں تین خواتین سمیت دو بچے جاں بحق جبکہ 16 افراد زخمی ہوئے ہیں مگر دھماکے کی نوعیت تاحال معلوم نہیں ہو سکی ہے۔
اسی طرح ضلع باجوڑ کے علاقہ ڈمہ ڈولہ میں بھی ایف سی چیک پوسٹ اور یوسف آباد پولیس سٹیشن پر مسلح افراد نے فائرنگ کی ہے، خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔ تاہم سی ٹی ڈی خیبر پختونخوا نے ضلع ملاکنڈ کے علاقہ پلئی میں کاروائی کے دوران چار دہشتگردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
خیبر پختونخوا پولیس کے اعلیٰ حکام کا کہنا ہے کہ پولیس دہشتگردوں کے خلاف کاروائیوں میں مصروف ہے مگر بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔
انسپکٹر جنرل آف پولیس خیبر پختونخوا اختر حیات گنڈاپور نے میڈیا کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ انہیں بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے جن کا ایک پہلو نہیں ہے: "ان چیلنجز سے نمٹنے کے لئے ہمیں ایک مشترکہ پالیسی بنانا ہو گی؛ ان (عسکریت پسندوں) کے مالی وسائل بند کرنے ہوں گے، معلومات اکٹھا کرنے کا نظام ضروری ہے، بہت سے ایسے چیلنجز ہیں جن پر قابو پانا ہو گا۔”
خیبر پختونخوا اور بلوچستان پاکستان کے دو ایسے صوبے ہیں جہاں پولیس، فوج اور فرنٹیئر کور کے جوانوں پر حملوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جن میں سینکڑوں جوان جاں بحق ہوئے۔ پاک فوج کے ترجمان نے ایک پریس بریفنگ میں بتایا تھا کہ امسال فوج نے تیرہ ہزار سے زائد بڑے اور چھوٹے آپریشنز کئے ہیں جس میں 239 دہشتگرد ہلاک ہوئے۔