معلمہ کا بچی پر تشدد، باپ نے بچی کو مزید پڑھانے سے انکار کر دیا
رفاقت اللہ رزڑوال
چارسدہ میں دینی مدرسہ کی معلمہ کے مبینہ تشدد سے 14 سالہ طالبہ کی ناک ٹوٹ گئی جبکہ تشدد سے بچی کے دیگر اعضاء بھی متاثر ہوئے ہیں۔ پولیس نے روزنامچہ رپورٹ درج کرکے انکوائری شروع کر دی۔
بچی کے والد ناصر علی نے ٹی این این کو بتایا کہ چارسدہ کے غریب آباد میں واقع مدرسہ عائشتہ اللبنات میں اُن کی 14 سالہ بچی درجہ چہارم میں زیر تعلیم تھی جہاں پر پیر کے دن مدرسے کی معلمہ نے اُن پر تشدد کرکے ناک اور سر توڑ دیا مگر تشدد کے بعد بھی اُن کا کوئی علاج نہیں کرایا گیا۔
ناصر علی آبدیدہ ہوکر بتاتے ہیں کہ وہ اسلام آباد میں محنت مزدوری کرتے ہیں اور چُھٹی لینے کے بعد وہ اپنی بچی سے ملنے گئے مگر مدرسے کی انتظامیہ مختلف ہیلے بہانے بنا کر بچی کے ساتھ ملنے نہیں دے رہی تھی، کئی گھنٹے گزرنے کے بعد اسے چند طالبات نے وہیل چئر کے ذریعے باہر نکالا۔
ناصر علی کہتے ہیں "جیسے ہی میں نے اپنی بچی کو وہیل چئر پر باہر آتے ہوئے دیکھا تو مجھ پر آسمان گر پڑا مگر بچی سے پوچھنے پر اس نے کچھ نہیں بتایا کیونکہ وہ اتنی دباؤ میں تھی کہ وہ ڈر کے مارے حقائق نہیں بتاتی تھی، بہرحال گھر میں لے جانے کے بعد انہوں نے ماں کو واقعے کا احوال بتایا”۔
ناصر علی کا کہنا ہے "میری بیٹی کی جسم میں شدید درد تھا جیسے ہی ڈاکٹر کے پاس لے گیا، ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ بچی پر شدید تشدد ہوا ہے اور تشدد سے اُن کا ناک اور سر توڑ دیا گیا ہے، جسم کے دیگر اعضاء بھی متاثر ہوئے ہیں”۔
انہوں نے بتایا "مجھے دُکھ اور افسوس اس بات پر ہو رہا ہے کہ ٹھیک ہے آپ نے بچی پر تشدد کیا لیکن کم از کم انسانیت کے ناطے بچی کو تو ڈاکٹر کے پاس لے جاتے مگر مدرسے کی انتظامیہ بچی کی کرب ناک حالت کو دھوکہ سمجھتے تھے”۔
ناصر علی کہتے ہیں "میں اب مزید اپنی بچی کو پڑھنے نہیں دونگا”۔ دوسری جانب مدرسہ انتظامیہ نے موقف دینے سے انکار کیا تاہم مدرسہ انتظامیہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ معلمہ کی جانب سے بچی پر تشدد کے واقعے کا انتظامیہ کوعلم نہیں تھا مگر ہماری واضح ہدایات ہے کہ بچوں پر تشدد نہ کیا جائے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مدرسہ انتظامیہ واقعے کو اپنی غفلت تسلیم اور ندامت کا اظہار کر رہی ہے لیکن بچی کے ساتھ تصفیہ کیلئے جرگہ تشکیل دیا گیا ہے جس سے معاملات حل ہوجائیں گے۔
تھانہ سٹی پولیس نے متاثرہ بچی کے والد کی شکایت پر روزنامچہ رپورٹ کراتے ہوئے تفتیش شروع کردی ہے۔ تھانہ سٹی کے ایس ایچ احمد خان نے بتایا کہ بچی پر تشدد کے واقعے کے خلاف تاحال روزنامچہ رپورٹ درج ہوا ہے مگر ملزمہ کو گرفتار نہیں کیا گیا تاہم ایف آئی آر کا اندراج متعلقہ ڈاکٹر کی ماہرانہ رائے کے بعد درج کیا جائے گا، جس کے بعد گرفتاری کا عمل شروع ہو گا۔
انہوں نے بتایا کہ واقعے کی شفاف انکوائری ہوگی، وہ بچی کے والد سے ملے ہیں اور انہیں ہر قسم کی انصاف دلانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
بچوں کی حقوق پر کام کرنے والے عمران ٹکر کا کہنا ہے کہ صحت، نفسیات اور تعلیم کے ماہرین کا ماننا ہے کہ بچوں پر تشدد اُن کی علمی اور ذہنی تقویت پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ تحقیق سے بھی ثابت ہوئی ہے بچوں پر تشدد سے انکی شخصیت میں جارحیت اور سماجی مسائل جنم لیتے ہیں۔
عمران ٹکر کا کہنا ہے کہ بچوں کی تعلیم چھوڑنے کی بنیادی وجہ اُن پر سکولوں اور مدرسوں میں اساتذہ کی جانب سے تشدد ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 1990 میں پاکستان نے بچوں کی حقوق کی تحفظ کی کنونشن کا معاہدہ کیا ہے اور اسی معاہدے کے تحت آرٹیکل 19 کے مطابق بچوں کو جسمانی اور ذہنی تشدد سے بچانا ریاست کی زمہ داری ہے۔
عمران ٹکر کا کہنا ہے کہ سال 2005 میں خیبرپختونخوا کے ایک سروے کے مطابق 28 اقسام کے سزائیں بچوں کو گھروں میں جبکہ 43 اقسام کی سزائیں سکولوں میں دی جاتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اسی طرح سال 2009 میں ایک سروے کیا گیا جس کے تحت 92 فیصد سرکاری سکولوں، 86 فیصد نجی سکولوں اور 83 فیصد ذہنی اور جسمانی سزائیں مدارس میں دی جاتی ہے۔