باجوڑ مہمند تنازعہ اور گاڑیوں کی یرغمالی
محمد بلال یاسر
ماہ رمضان میں ضلع مہمند میں باجوڑ کی ایک بس اور موٹر کار کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا جس میں موٹر کار میں سوار مہمند کے پانچ افراد جانبحق ہو گئے تھے۔ واقعہ میں انصاف نہ ملنے کے خلاف 19 مئی کو ضلع مہمند کے کچھ مشران نے بمقام محمد گٹ باجوڑ کی ایک یو ٹانگ بس اور تین عدد موٹر کاروں سے سواریوں کو اتار کر گاڑیوں کو بزور زبر دستی یرغمال بنایا جس کے باجوڑ کے ٹرانسپورٹ یونین نے ضلع مہمند کے 26 فلائنگ کوچوں کو پکڑ کر باجوڑ میں یرغمال بنالیا۔
باجوڑ اور ضلع مہمند کے اقوام کے طویل عرصے سے ایک دوسرے کے ساتھ گہرے روابط چلے آرہے ہیں۔ باجوڑ اور مہمند کے درمیان طویل سرحد مشترک ہے ، انتظامی امور کے باعث چند سال قبل ضلع مہمند اور باجوڑ کے درمیان تنازعہ پیدا ہوا۔ تنازعے کے حل کیلئے نمائندہ جرگے کو سابقہ ایم این اے خیبر الحاج شاہ گل آفریدی کی سربراہی میں اختیار دیا گیا۔ مگر تین سال گزرنے کے باوجود ابتک کوئی فیصلہ نہیں کرسکے اور عوام کو تنازعات کے بیچ چھوڑ دیا ہے۔
باجوڑ کے عوام کا سب سے زیادہ آمد و رفت براستہ مہمند پشاور اور ملک کے دیگر اضلاع کے طرف ہوتا ہے۔ روزانہ کی بنیادی پر ذاتی ملکیتی گاڑیوں کے علاوہ سینکڑوں موٹر کاریں ، درجنوں فلائنگ کوچز ، بڑی بسیں سفر کرتی ہے۔ سڑک کی خراب حالت اور تیز رفتاری کے باعث اکثر حادثات پیش آتے ہیں ، جب کوئی گاڑی حادثہ کی زد میں آکر جاں بحق ہوتا ہے تو ٹرانسپورٹر یونین کی جانب سے جرگہ منعقد ہوتا ہے اکثر اوقات ورثا معاف کردیتے ہیں اور کبھی کبھار تلخی بھی پیدا ہوجاتی ہے۔
حالیہ واقعہ کیا ہے ؟
تین ماہ قبل 18 فروری کی صبح باجوڑ کی یوٹانگ گاڑی نے علی الصبح ضلع مہمند موسیٰ خیل گلئ کلے میں ایک موٹر کار کو ٹکر ماری جس میں خاتون سمیت چھ افراد سوار تھے ۔ یوٹانگ گاڑی کی ٹکر کے وجہ سے موقع پر خاتون سمیت پانچ افراد چل بسے جبکہ ایک شدید زحمی ہوا جو کہ تاحال پشاور ہسپتال میں بے ہوشی کے حالت میں پڑا ہے۔جانبحق افراد میں میاں بیوی بھی شامل تھے۔
دونوں اطراف میں کشیدگی کیوں پیدا ہوئی ؟
ضلع باجوڑ کی جانب سے جرگہ ممبر نے نام ظاہر نہ کرنے کے شرط پر بتایا کہ جس دن یہ واقعہ رونما ہوا ہے اسی دن سے جرگہ جاری ہے جس میں ابتک کئی راؤنڈ ہوچکے ہیں۔ گزشتہ روز جرگے کے دوران تلخی اس وقت پیدا ہوئی جب مہمند کے جرگہ ممبران نے اصرار کیا کہ واقعہ میں مرنے والے افراد کیلئے معاوضہ کا تعین مہمند کے جرگہ ممبران کریں گے جبکہ باجوڑ کے جرگہ ممبران کا اصرار تھا کہ دونوں اضلاع کے جرگہ ممبران متاثرہ خاندان کے آگے منت سماجت کریں گے اور متاثرہ خاندان جو معاوضہ کہیں گے اس کی ادائیگی گاڑی مالک پر لازم ہوگی چاہے وہ کم ہو یا زیادہ۔
متاثرہ خاندان کا موقف کیا ہے ؟
متاثرین کے نمائندہ حضرت بلال نے ٹی این این سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ واقعہ میں ہمارے ساتھ بہت زیادتی ہوئی ، بس ڈرائیور کو پولیس نے چھوڑ کر ہمارے ساتھ ظلم کیا۔ واقعہ میں مرنے والے چھ افراد کی وجہ سے 34 بچے یتیم رہ گئے۔ مگر تین مہینوں کے باجود باجوڑ بس والوں نے پوچھا تک نہیں ۔ جس کی وجہ سے مسلے میں شدت پیدا ہوگئی اور ہم قومی مشران و جرگہ ممبران سے ملکر باجوڑ کے گاڑیوں کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔ یہ اقدام ہم نے احتجاجاً کیا ہے جب تک ہمیں انصاف نہیں ملتا ہمارا یہ احتجاجی اقدام جاری رہے گا۔
مسئلے کے حل میں انتظامیہ کا کردار
دونوں اضلاع کے عوام حالیہ واقعات میں ضلعی انتظامیہ سے شکوہ کرتے ہیں۔ گزشتہ روز سوشل میڈیا پر شدید عوامی رد عمل کے بعد ڈپٹی کمشنر باجوڑ محمد انوار الحق کی خصوصی ہدایات پر اسسٹنٹ کمشنر خار محب اللہ خان کی سربراہی میں باجوڑ کی جرگہ ممبران نے ضلع مہمند کا دورہ کیا۔ جرگہ میں ناظم حاجی سید بادشاہ، ناظم ڈاکٹر خلیل الرحمان اور ٹرانسپورٹ یونین کے نمائندگے شامل تھے۔ جبکہ ضلع مہمند کی طرف سے اسسٹنٹ کمشنر اپر مہمند، اسسٹنٹ کمشنر لوئر مہند، ناظم ڈسٹرکٹ مہند ،ڈی ایس پی مہند اور قومی مشران نے شر کت کی۔ کافی گفت وشنید کے بعد جرگہ نے متفقہ فیصلہ کیا کہ کل دونوں ناظمین مہند اور باجوڑ دونوں فریقین سے واک اختیار لینگے۔ واک اختیار لینے کے بعد گاڑیوں کو چھوڑ دیا جائے گا مگر تاحال ایسا نہ ہوسکا۔
عوام کا مطالبہ کیا ہے ؟
عوام کا دونوں اطراف کے ضلعی انتظامیہ سے مطالبہ ہے کہ ایک دوسرے کے گاڑیوں کا محاصرہ اور آئے روز کی لڑائی جھگڑے کسی بھی بڑے واقعے کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتے ہیں لہذا ضلعی انتظامیہ مقامی مشران اور نمائندگان کے ساتھ ملکر اس کیلئے موثر اور دیرپا حل تلاش کرے اور کسی بھی واقعہ کے ٹرانسپورٹ کو بند کرنے کی بجائے مقرر کیے گئے قواعد و ضوابط پر عملدرآمد کیا جائے۔ اگر اسی طرح عوام کے ہاتھ میں اختیار دیا جائے تو اس سے لوگوں کے درمیان تشدد پیدا ہوگی اور ہر کوئی اپنا فیصلہ مقرر کرے گا۔ اس واقعہ میں بھی مقتول کے ورثاء زیادہ حقدار ہیں انہیں کو اختیار دیا جائے اور سب کچھ متاثرین کی خواہشات کے مطابق ہونا چاہیے۔