جرائم

نومولود بچی کی خرید و فروخت میں ملوث ملزمان گرفتار مگر ایسے واقعات کی روک تھام کیسے ممکن ہوگی؟

رفاقت اللہ رزڑوال
چارسدہ پولیس نے ویمن اینڈ چلڈرن ہسپتال سے جمعے کی صبح اغوا ہونے والی نومولود بچی کو بازیاب کرکے دو خواتین اور دو مردوں کو گرفتار کرلیا۔
پیر کے دن سپرنٹنڈنٹ آف پولیس انوسٹی گیشن احسان شاہ نے ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ نجیم آباد سرڈھیری کی رہائشی ابراہیم کی بیوی نے ویمن اینڈ چلڈرن ہسپتال کے گائناکالوجی وارڈ میں بچی کو جنم دیا جو جمعے کے دن سے لاپتہ ہوئی۔
ایس پی احسان شاہ نے بتایا کہ حاملہ خاتون کے ساتھ آئی ہوئی ساس کے ساتھ ملزمہ نے گپ شپ کے ذریعے تعلق بنایا جب خاتون نے بچی کو جنم دیا تو ہسپتال عملے نے بچی کو ساس کے حوالے کر دیا۔ اسی دوران ساس نے ملزمہ خاتون کو بتایا کہ وہ نماز پڑھنے جا رہی ہے آپ بچی کا خیال رکھیں تو ملزمہ خاتون نے موقعے کا فائدہ اُٹھا کر بچی کو اغواء کر لیا۔

انہوں نے کہا کہ پولیس نے واقعے کی اطلاع ملنے کے بعد تحقیقات کا آغاز کر دیا اور پہلی فرصت میں تھانہ سٹی میں سی سی ٹی وی نظام کمانڈ اینڈ کنٹرول کے ساتھ ہسپتال کے منسلک کیمروں کی فوٹیج حاصل کرلی۔
فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک برقعہ پوش خاتون نومولود بچی کو اُٹھاکر ہستپال سے باہر لے جا رہی تھی جس کے بعد خاتون غائب ہوتے دیکھا جاتا ہے۔
سنیئر افسر نے بتایا کہ ملزمہ کے خلاف تحقیقات کے بعد گرفتار کر لیا گیا۔ ملزمہ نے بچی کو اپنی ساس اور شوہر کے ذریعے پشاور میں بے اولاد جوڑے کو 30 ہزار روپے میں فروخت کر دیا تھا۔ پولیس نے بیچنے والے دو خواتین، ایک مرد اور خریدنے والوں میں ایک مرد گرفتار کر لیا ہے جبکہ خریدنے والی ایک خاتون تاحال مفرور ہے جس کے خلاف چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

ایس پی احسان شاہ نے بتایا کہ ملزمان کے خلاف دفعہ 364 اے (دس سال سے کم عمر بچے کی اغوائیگی) کے جرم کے تحت مقدمہ درج کر لیا جنہیں عدالت میں پیش کر دیا گیا ہے۔

بچی کے اغوا کا مقدمہ درج
شکایت گزار ابراہیم نے بتایا کہ اس کی ماں 26 مارچ کو صبح اس کی بیوی کو حمل کا وقت پورا ہونے پر ویمن اینڈ چلڈرن ہسپتال وارڈ میں لے آئیں، جس نے اسی دن ایک بچی کو جنم دیا۔
متاثرہ والد نے بتایا کہ ان کی شیر خوار بیٹی ولادت کے تین چار گھنٹے بعد ہسپتال سے لاپتہ ہوئی جس کی اطلاع انکی  ماں نے انکو دی۔ جب انہوں نے ہسپتال عملے سے دریافت کیا تو انہوں نے ان کے ساتھ تعاون نہیں کیا۔
انہوں نے بتایا کہ ہسپتال عملے کے عدم تعاؤن کے بعد انہوں نے تھانہ سٹی میں مقدمہ درج کر لیا جس پر پولیس نے کاروائی شروع کرکے ملزمان کو گرفتار کر لیا۔ ملزمان کے قبضے سے بچی بازیاب کرکے انکے حوالے کر دی گئی ہے۔

ایسے واقعات کو کیسے روکا جاسکتا ہے؟
چارسدہ ویمن اینڈ چلڈرن ہسپتال کی سنیئر گائناکالوجسٹ نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ سرکاری ہستپالوں کی نسبت پرائیویٹ ہسپتالوں میں ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے کڑی نگرانی کی جاتی ہے۔
تاہم انہوں نے بتایا کہ ایسے اذیت ناک واقعات سے بچنے کیلئے سرکاری ہستپالوں میں ایک موثر میکینزم کا قیام ہونا چاہئے جس سے ایسے واقعات ناممکن ہوسکیں۔
سینئر گائناکالوجسٹ نے ایک نجی ہسپتال کا حوالہ دے کر بتایا کہ وہاں نومولو بچے اور اس کی ماں کو ایک مخصوص ٹیگ لگایا جاتا ہے جس کے بغیر سیکورٹی گارڈ کسی بچے کو ہسپتال سے باہر جانے نہیں دیتے۔
انہوں نے بتایا کہ بعض ہسپتالوں میں بچوں کا فُٹ پرنٹ یا فنگر پرنٹ لیا جاتا ہے اور گیٹ پر نکلنے کے دوران اسے چیک کیا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اسی طرح ہسپتالوں سے نومولود بچوں کی اغوائیگی کے واقعات کی روک تھام ہوسکتی ہے۔
ایس پی احسان شاہ نے بھی اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ محکمہ صحت کے حکام سے بیٹھ کر ایسا لائحہ عمل بنائیں گے جس سے بچے محفوظ ہو۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button