جرائم

چارسدہ: بیٹی کو ذبح کرنے والے باپ کو سزائے موت سنا دی گئی

رفاقت اللہ رزڑوال

چارسدہ کے ایڈیشنل سیشن جج نے چار سالہ مریم بیٹی کو ذبح کرنے کے جرم میں ان کے مجرم والد سزائے موت سنا دی۔ چارسدہ کے مقامی عدالت ایڈیشنل سیشن جج عبدالحسن مومند نے فیصلہ سناتے ہوئے سزائے موت اور ورثاء کو پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنا دی۔

عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ اگر جرمانہ ادا نہ کیا گیا تو مجرم مزید 6 ماہ کی قید گزارے گا۔ عدالتی فیصلے پر بچوں کی حقوق پر کام کرنے والے کارکنوں نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بچوں کے ساتھ جرائم میں ملوث افراد کی سزا سے بچوں پر تشدد میں کمی آ جائے گی مگر فیصلے میں تاخیر پر تشویش کا اظہار بھی کیا ہے۔

ریکارڈ کے مطابق مجرم عبیداللہ مقتولہ مریم کے باپ تھے جس نے جولائی 2022 کو اپنی بیٹی کو قتل کرکے لاش دریائے جیندے کے کنارے چھوڑی تھی جس کے بعد انہوں نے نامعلوم افراد کے خلاف ان کے قتل کی ایف آئی آر بھی درج کی تھی۔

واقعہ کے تین دن بعد پولیس نے مریم کے والد عبیداللہ کو گرفتار کر لیا تھا، پولیس کی کسٹڈی میں انہوں نے اقبال جرم کرکے بتایا کہ انہوں نے اپنی بیٹی کو شک کی بنیاد پر قتل کیا تھا کہ وہ کسی اور کی بیٹی ہے۔
اس وقت پولیس کی تفتیشی افسر سجاد خان نے ٹی این این کو بتایا تھا کہ ملزم کا دعویٰ تھا کہ اس کی بیوی کا شادی سے قبل کسی سے معاشقہ تھا جس نے اسے حاملہ کر دیا تھا اور جب شادی کے فوراً بعد بیٹی پیدا ہوئی تو سب نے انگلیاں اٹھانا شروع کر دئے جس سے وہ بہت افسردہ تھے۔

کیس کی پیروی کیلئے مریم کی ماں مدعی کے طور پر عدالت میں پیش ہو رہی تھی جس کا کیس سرکاری وکلاء کی ٹیم لڑ رہے تھے۔

سرکاری وکلاء کے سینئر افسر ڈسٹرکٹ پبلک پروسیکیوٹر جاوید علی مومند نے ٹی این این کو بتایا کہ عدالت نے مختصر فیصلے میں مجرم عبیداللہ کو سزائے موت اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ استغاثہ نے ملزم سے برآمدہ چُری، پستول اور پولیس کی جمع کردہ واقعاتی شہادتیں نے ان کی مقدمے کو مضبوط کیا، اسکے علاوہ مجرم نے 164 کے تحت عدالت کے سامنے اعتراف جرم بھی کیا تھا۔ ڈی پی پی جاوید علی نے بتایا کہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مجرم 7 دن کے اندر اندر پشاور ہائی کورٹ میں اپنے فیصلے پر نظرثانی کیلئے درخواست دے سکتا ہے۔

"اگر 7 دن کے اندر ہائی کورٹ میں درخواست نہ دیا تو مریم کی ماں کو 5 لاکھ روپے ادا کرے گا اور عدم ادائیگی کی صورت میں چھ ماہ قید کے بعد موت کی سزا دی جائے گی”۔ مریم قتل کیس کے بعد چارسدہ پولیس نے پوچھ گچھ کیلئے 36 افراد کو گرفتار اور 40 گھروں کی پروفائیلنگ کیا تھا جس کے بعد اصل مجرم پکڑنے میں کامیاب ہوئے تھے۔

چارسدہ ایڈیشنل سیشن جج عبدالحسن مومند کے فیصلے پر بچوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والے کارکنوں نے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔

پشاور میں مقیم بچوں کی حقوق پر کام کرنے والے کارکن عمران ٹکر نے ٹی این این کو بتایا کہ فیصلہ بچے کو قتل کرنے پر دی گئی ہے جس کا یہ سزا بنتی تھی مگر ڈیڑھ سال بعد فیصلہ آنا انصاف کی نظام پر سوالیہ نشان ہے۔

عمران نے ملکی نظام کو ایک ناکام نظام قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہاں پر ایک عدالت سزا دے دیتی ہے اس سے بڑی عدالت سزا ختم کر دیتی ہے، مجرم کو سزا تو دی گئی ہے مگر انکے پاس ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں جانے کا حق بھی ہے اور اس دوران وہ جرگہ سسٹم کے ذریعے راضی نامہ کرکے اپنی سزا ختم کرسکتا ہے جس سے مجرم کو ریلیف ملے گا، تو بہتر ہے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے ہم معاشرتی رویوں پر نظر دوڑائیں۔

انہوں نے سوال اُٹھاتے ہوئے ” ایسے واقعات رونما ہوتے کیوں ہیں؟ ان مسائل کی روک تھام کیلئے ریاست، میڈیا اور سول سوسائٹی کو چاہئے کہ عوامی سطح پر شعوری مہم چلائیں تاکہ کسی کی زندگی برباد نہ ہو”۔

عمران ٹکر کہتے ہیں "بچوں کی تحفظ اور سوسائٹی میں شعور کی بیداری کیلئے قرآنی تعلیمات اور قوانین میں سزاؤں کے متعلق حساسیت سے عوام کو باخبر رکھنا ہوگا، اگر ہم تھانے، عدالتوں اور سزاؤں پر خود کو مطمئن کرے تو میرے خیال میں یہ مسئلے کا حل نہیں ہے”۔

پاکستان میں بچوں کی حقوق پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظٰیم ساحل کے مطابق سال 2023 کے پہلے چھ ماہ کے دوران بچوں کے خلاف جرائم کے 2227 واقعات ریکارڈ ہوئے جن میں 760 بچوں کی موت عدم وجوہات کی بناء مر گئے جبکہ 148 بچوں کو قتل کیا گیا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button