سی ٹی ڈی کی انتہائی مطلوب دہشتگرد لسٹ میں صحافی کا نام شامل کرنے پر سوالات اُٹھنے لگے
رفاقت اللہ رزڑوال
خیبرپختونخوا کے محکمہ انسداد دہشتگردی (سی ٹی ڈی) نے منگل کے روز انتہائی مطلوب 150 سے زائد دہشتگردوں کی فہرست جاری کردی جس میں قبائلی اضلاع کیلئے ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے ترجمان اور سابق صحافی احسان الرحمان داؤڑ کا نام بھی ڈال دیا گیا ہے۔ ترجمان کے سر کی قیمت دس لاکھ روپے مقرر کی گئی ہے۔
محکمہ سی ٹی ڈی نے اپنے موقف میں احسان الرحمان داؤڑ کی جگہ احسان اللہ خان کا نام درج کیا ہے مگر احسان الرحمان نے بتایا کہ مذکورہ شئر کردہ لسٹ میں ان کا نام غلط مگر تصویر، شناختی کارڈ نمبر، والد کا نام اور پتہ درست لکھا ہے۔
تاہم سی ٹی ڈی کی جاری کردہ لسٹ پر صحافیوں اور سول سوسائٹی نے تحفظات اور خدشات کا اظہار کرکے اسے سنگین غلطی اور بے گناہ گھرانوں کے گھر اجاڑنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ سابق صحافی احسان الرحمان داؤڑ نے ٹی این این کو بتایا کہ وہ 2011 سے پشاور میں مقیم ہے اور آج تک کسی بھی عدالت یا پولیس اسٹیشن نے اسے ایسی کسی مقدمے میں طلب نہیں کیا اور نہ ان کا یا انکے خاندان کے کسی بھی فرد کا انتہا پسندی سے کوئی تعلق ہے۔
احسان داؤڑ نے بتایا ” میں نے جب خبر پڑھی کہ وہ انتہائی دہشتگردوں کی فہرست میں شامل ہے اور اسکے سر کی قیمت 1 ملین روپے رکھی گئی ہے تو میرے پیروں سے زمین سرک گئی، اس خبر نے دنیا بھر میں میری ساکھ کو بُری طرح متاثر کیا”۔
انہوں نے بتایا "اگر کوئی اس طرح بات ہوتی تو ظاہر سی بات ہے کہ میں اپنی صفائی کیلئے پولیس اسٹیشن بھی جاتا اور عدالت میں بھی حاضری دیتا مگر ایسا کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں”۔
داؤڑ نے بتایا ” وہ اور انکا علاقہ سب سے زیادہ دہشتگردی کی جنگ میں متاثر ہوا، اس پر انہوں نے نومبر 2021 میں وزیرستان کے ثقافت پر کتاب بھی لکھی ہے جس میں ان تمام نقصانات کا جائزہ لیا گیا ہے جس کی وجہ دہشتگردی تھی”۔
احسان داؤڑ کی ٹاپ ٹیرارسٹ لسٹ میں نام آنے کے بعد عوامی اور سماجی حلقوں کی جانب سے سخت ردعمل آیا جس میں سی ٹی ڈی کی کاروائیوں پر سوالات اُٹھانے لگے ہیں اور کہا گیا ہے کہ اس قسم کی غفلت سے کئی گھرانے اجڑنے کے خطرات پیدا ہوسکتے ہیں۔
تاہم گزشتہ رات سی ٹی ڈی نے اپنی جاری کردہ بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ احسان اللہ خان کے خلاف 5 مئی 2019 میں خڑکمر میں فوجی چوکی پر حملے کے جرم میں تھانہ سی ٹی ڈی بنوں پاکستان پینل کوڈ کے دفعہ 302، 353 اور انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت مقدمات درج ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ احسان اللہ خان کی عدالت میں عدم حاضری کے خلاف ڈی پی او شمالی وزیرستان نے 9 جون 2021 کو 10 لاکھ روپے ہیڈ منی ڈالنے کی سفارش کی تھی۔
مگر اعلامیہ میں احسان الرحمان کی بجائے احسان اللہ خان جبکہ تصویر، پتہ اور شناختی کارڈ نمبر احسان الرحمان کی دکھائی گئی ہے جس پر تجزیہ کاروں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اسلام آباد میں مقیم واشنگٹن پوسٹ سے وابستہ سینئر صحافی حق نواز خان نے ٹی این این کو بتایا کہ خڑکمر واقعے میں احسان اللہ نامی شخص موجود تھا مگر اسکے بعد سیکورٹی حکام کے ساتھ ان کا مسئلہ جرگے کے ذریعے ختم ہوا مگر سی ٹی ڈی کی تحقیق کا یہ حال ہے کہ دوبارہ ان کا نام ‘موسٹ وانٹد لسٹ’ میں ڈالا گیا اور دوسرا ظلم یہ کہ ملزم کی بجائے صحافی کا نام شامل کروایا گیا تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے اداروں کی تحقیق اور کارکردگی کا معیار کیا ہے۔
حق نواز کہتے ہیں ” سی ٹی ڈی کی لسٹ میں ایسے افراد بھی موجود ہیں جن کی ڈیتھ ہوچکی ہے اور اس کا اعلان سرکاری طور پر ہو چکا ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ادارے کتنی غیرسنجیدگی سے کام کرتے ہیں”۔
تاہم سی ٹی ڈی کا موقف ہے کہ دہشتگردی میں ملوث افراد کی معلومات اکٹھا کرنے کیلئے میڈیا پر مہم شروع کی گئی ہے اور خاص طور پر وہ لوگ جن کے سر کی قیمت رکھی گئی ہے۔
چارسدہ سے صحافی واجد علی آفریدی کا کہنا ہے کہ دہشتگردوں کی لسٹ میں صحافی کی جاری کردہ تصویر ادارے کی غیر زمہ داری کی عکاس ہے جس کی وجہ سے سارے کاروائیاں مشکوک ہوجاتی ہے۔
واجد علی کہتے ہیں "مجھے تو اب وہ کاروائیاں بھی مشکوک لگنے لگی ہیں جن کی لسٹیں جاری ہونے کے بعد ٹارگٹ کیا گیا یا قانونی کاروائیوں کا سامنا کر رہے ہیں، یہ وہ چیزیں ہیں جس پر اداروں سے عوام کا اعتماد اُٹھ جاتا ہے”۔
انہوں نے بتایا کہ اس سنگین غلطی پر ملوث اہلکاروں کے خلاف بھرپور کاروائی کرکے عوام کے سامنے لایا جائے تاکہ پتہ چلیں کہ کس نے ایک حساس ادارے کے ساتھ ایک بے گناہ شخص کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔
واجد افریدی کہتے ہیں کہ ادارے کے اندر سزا اور جزا کے عمل کے ساتھ تحقیق، احتیاط اور ہوم ورک کی سخت ضرورت ہے تاکہ کسی بھی بے گناہ کی جان اور مال محفوظ رہے۔
واقعے کا مقدمہ 26 مئی 2019 کو درج کیا گیا تھا جس میں 13 افراد کی ہلاکت اور 25 زخمی ہونے کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ اور سابق ممبر قومی اسمبلی محسن داوڑ، پشتون تحفظ موومنٹ کے رُکن علی وزیر، ڈاکٹر گل عالم سمیت 9 افراد نامزد کئے گئے ہیں۔
تاہم 14 اکتوبر 2020 کو بنوں انسداد دہشتگردی عدالت نے محسن داوڑ اور علی وزیر کو بری کردیا ہے جبکہ احسان اللہ سمیت 7 ملزمان کو اشتہاری قرار دے دیا ہے۔ تاہم عدالتی مقدمے اور ایف آئی آر میں ملزم کا نام احسان اللہ خان درج ہے مگر ولدیت دستاویزات سے غائب ہے۔