پشاور میں قتل ہونے والے طالبعلم حسن طارق کے والد کو بیٹے کا آخری دیدار بھی نصیب نہ ہوا
رفاقت اللہ رزڑوال
پشاور میں سوری پُل کے مقام پر موبائل سنیچرز کے ہاتھوں قتل ہونے والے ایڈورڈز کالج کے طالب علم کے ورثاء نے آئی جی خیبرپختونخوا سے ملزمان پکڑنے اور وکلاء سے ملزمان کے حق میں کیس نہ لڑنے کا مطالبہ کیا ہے۔
گزشتہ روز پشاور ایڈورڈز کالج کا 18 سالہ طالب علم جب رکشہ کے ذریعے کالج سے گھر واپس آ رہا تھا تو تھانہ شرقی کی حدود سوری پُل کے اوپر موٹرسائکل سواروں نے اس سے موبائل فون چھیننے کی کوشش کی مگر حسن طارق نے مزاحمت کی جس کے نتیجے میں نامعلوم ملزمان نے فائرنگ کرکے اسکی جان لے لی۔
حسن طارق بنیادی طور پر خیبرپختونخوا کے ضلع چارسدہ کے علاقہ درگئی کا رہائشی تھا جس کا والد گزشتہ چودہ سال سے قریبی ملک چائنہ میں کام کررہا ہے۔ اپنے بچوں کی بہترین تعلیم و تربیت کی غرض سے انہوں نے اپنے بیٹے حسن طارق کو پشاور اپنے دادا کے گھر منتقل کیا جہاں پر انہوں نے ایڈورڈز کالج میں داخلہ لیا۔
حسن طارق کے دادا فضل غنی نے ٹی این این کو بتایا کہ انہیں اپنے پوتے کی موت کی اطلاع اس وقت ملی جب انکے کلاس فیلوز نے انہیں فون کے ذریعے بتایا کہ انکے پوتے کو راہزنوں نے گولی مار کر زخمی کیا ہے مگر جونہی وہ ہسپتال پہنچے تو ان کی موت واقع ہو چکی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ ماں اپنی بیٹے کی غم سے نڈھال ہے اور والد چائنہ میں کاروبار کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے بیٹے کا آخری دیدار بھی نہ کرسکا۔ انہوں نے پولیس سے جلد از جلد ملزمان کو پکڑنے کے مطالبے کے ساتھ ساتھ وکلاء سے ملزمان کے حق میں کیس نہ لڑنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
حسن طارق کے فاتحے میں بیٹھے افراد بھی غم سے نڈھال نظر آ رہے تھے جہاں پر انکے والدین کی بے بسی، غم اور اذیت پر گفتگو ہو رہی تھی۔ فاتحے میں موجود حسن طارق کے ماموں نوید احمد نے بتایا کہ حسن طارق کو اپنے والدین نے اسلئے اپنے آُپ سے جدا کیا تھا تاکہ وہ اچھی تعلیم حاصل کرے مگر ‘جانوروں نے اسے نہیں چھوڑا’۔
انہوں نے ٹی این این کو بتایا کہ جہاں پر انکے بھانجے کا قتل ہوا ہے یہ ایک حساس علاقہ ہے جس کے ارد گرد سنٹرل جیل، اسمبلی ہال، قلعہ بالاحصار اور دیگر اہم ادارے واقع ہیں جہاں پر درجنوں پولیس اہلکار تعینات ہوتے ہیں مگر ان کی موجودگی کے باوجود بھی ملزمان باآسانی فرار ہوگئے۔
حسن طارق کے خاندان کے افراد کے ساتھ گفتگو جاری تھی کہ اچانک دھاڑیں مارنے کی آوازیں کانوں کو سنائی دینے لگی معلوم کرنے کے بعد پتہ چلا کہ انکے والد مفتی طارق پہنچ گئے ہیں۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے حسن طارق کی موت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے آئی جی خیبرپختونخوا سے واقعے کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔
گزشتہ روز وزیراطلاعات کے دفتر سے جاری کردہ بیان میں مرحوم کے لواحقین کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ واقعے میں ملوث مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچائیں گے۔
بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایس ایس پی اپریشن تحقیقات کی نگرانی کر رہے ہیں ۔ پولیس نے جائے وقوعہ کی جیو فینسنگ کے ساتھ مختلف جگہوں پر نصب سی سی ٹی وی کیمروں کا جائزہ بھی لیا ہے۔