پاکستان میں افغان باشندوں کی گرفتاری کے معاملے پر انسپکٹر جنرل آف پولیس خیبر پختونخوا کو خط
آفتاب مہمند
کمشنر افغان رفیوجیز خیبر پختونخوا نے پاکستان میں رجسٹرڈ مقیم افغان مہاجرین کی گرفتاری و بے جا تنگ کرنے کے معاملے پر انسپکٹر جنرل آف پولیس خیبر پختونخوا سے رابطہ کر لیا۔
کمشنر افغان رفیوجیز کی جانب سے انسپکٹر جنرل آف پولیس خیبر پختونخوا کے نام بجھوائے گئے ایک خط میں مذکورہ معاملہ اٹھا کر کہا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا میں رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی جانب سے انکو پولیس کے نامناسب رویے کی شکایات موصول ہو رہی ہیں۔ شکایات کے مطابق افغان باشندوں کی گرفتاریاں ہورہی ہے اور انکو بے جا تنگ کیا جارہا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ رجسٹرڈ افغان باشندوں کو گرفتار یا تنگ کرنے سے گریز کیا جائے۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ مذکورہ معاملہ وزارت سیفران کے نوٹس میں بھی لایا جا چکا ہے۔ خیبر پختونخوا سمیت ملک بھر میں افغان باشندے گزشتہ 43 سال سے مقیم ہیں۔ پہلے بھی افغان مہاجرین سے متعلق ایسی شکایات سامنے آتی رہی ہیں۔
افغان باشندوں کی رجسٹریشن کے معاملات کا وقتا فوقتاً افغان کمشنریٹ چھان بین کرتا رہتا ہے۔ حال ہی میں افغان باشندوں کو رہائش میں مزید توسیع دینے کیلئے وفاقی کابینہ کو ایک سمری بجھوائی جا چکی ہے لہذا وہ افغان باشندے جنکے پاس افغان سیٹیزن کارڈز موجود ہیں اور نادرا نے بھی انکو رجسٹریشن کارڈز دے رکھے ہیں انکو بالکل بھی بے جا تنگ نہ کیا جائے۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ پولیس کے اعلی حکام اضلاع کی سطح پر پولیس کو ان اقدامات سے روک لیں۔ اس ضمن میں اعلی پولیس حکام ریجنل پولیس افسران کو واضح احکامات جاری کریں۔
یاد رہے کہ 14 ستمبر 2023 کو نگران وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمد اعظم خان کی زیر صدارت پراونشل ایپکس کمیٹی کے ایک اجلاس میں خیبر پختونخوا میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر افغان باشندوں کا ڈیٹا اکٹھا کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ دوسری جانب حکومت پاکستان کو ہمیشہ افغان باشندوں سے متعلق یہ شکایات رہی ہیں کہ وہ پاکستان میں دہشتگردی، بھتہ خوری، سمگلنگ، اغواء برائے تاوان جیسے جرائم میں ملوث رہے ہیں۔
اس حوالے سے خیبر پختونخوا کے سنئیر صحافی سید فخر کاکاخیل کہتے ہیں کہ پاکستان میں حال ہی میں ڈالر کی قیمت جب اپنے عروج پر پہنچ گئی تو حکومت پاکستان نے ڈالر کی سمگلنگ میں ملوث افراد کے خلاف کارروائیاں کی جس کے دوران معلوم ہوا کہ ایک بڑی تعداد میں افغان باشندے بھی اس سمگلنگ میں ملوث ہیں۔
عالمی دنیا نے افغان باشندوں کو بتایا تھا کہ آپ لوگ ایران یا پاکستان منتقل ہوجائے وہاں سے آپکو امریکہ، یورپ یا دیگر ترقی یافتہ ممالک کے ویزے با آسانی ملیں گے۔ لہذا ایک بڑی تعداد میں افغان باشندے یہاں منتقل ہوئے جسمیں 200 افغان صحافی و انکے اہل خانہ بھی شامل ہیں۔
اب یہ لوگ یہاں ویزوں کیلئے اپلائی تو کر رہے ہیں لیکن مختلف ممالک کے سفارتخانے انکو ویزے نہیں دے رہے اور سارا بوجھ پاکستان ہی پر پڑ رہا ہے۔ یوکرائن جنگ کے بعد وہاں سے لاکھوں باشندے یورپ و دیگر ترقی یافتہ ممالک کو منتقل ہوگئے اور افغان باشندوں کی جگہ انہوں نے لے لی۔
انہوں نے کہا کہ ایسے میں افغان باشندے مختلف وجوہات کی بنیاد پر اپنے ملک بھی نہیں جا سکتے لہذا کئی افغان باشندے یہاں جرائم و دیگر واردات میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف یو این اور یو این ایچ سی آر بھی اب انکو امداد نہیں دے رہے۔
جہاں پاکستان میں رجسٹرڈ افغان باشندوں کا تعلق ہے تو انکی تعداد لگ بھگ 25 لاکھ تک ہے اگر وہ جرائم یا تخریب کاری جیسے واقعات میں ملوث نہیں تو انکو یہاں گرفتار یا بے جا تنگ کرنا ایک غلط بات ہے۔ لیکن اگر کوئی بھی افغان باشندہ یہاں غیر قانونی کاموں میں ملوث پایا جاتا ہے پھر تو حکومت پاکستان نے ہمارے ہی قوانین کے مطابق انکے خلاف کاروائی تو کرنی ہوگی۔