جرائم

چارسدہ کے ایک گاؤں سے وٹس ایپ کے ذریعے کس طرح سعودی عرب میں منشیات کا کاروبار چلتا ہے؟

 

عبدالستار

ضلع چارسدہ کا گاؤں اجون کلے بین الاقوامی سطح پر منشیات کے کاروبار کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے۔ یہاں آجکل وٹس ایپ کے ذریعے منشیات کا کاروبار چلایا جارہا ہے۔ یہ گاؤں چھوٹا دبئی کے نام سے بھی مشہور ہے۔ اجون کلے چارسدہ بازار سے 25 کلومیٹر کے فاصلے پر شمال مشرق میں واقع ہے۔

اجون کلے سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان جس نے اپنا فرضی نام احمد علی بتایا کہا کہ وہ خود اس گاؤں کے ایک  منشیات سمگلر کا سعودی عرب میں تین سال تک "منڈے”(ڈیلیوری مین) رہا ہے۔

احمد علی نے بتایا کہ اجون کلے میں تقریبا ایک ہی قبیلے کے لوگ آباد ہیں جن میں زیادہ تر لوگ آج کل ملک سے باہر منشیات کا کاروبار کرتے ہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کس طرح گاؤں سے سعودی عرب میں منشیات کا کاروبار چلتا ہے؟ تو احمد علی نے بتایا کہ وٹس ایپ کے زریعے منشیات سمگلر آسانی سے اپنے گھر میں بیٹھ کردنیا کے دوسرے ممالک میں کاروبار چلاتے ہیں اور باہر ممالک کی سخت سزاؤں سے بھی بچ جاتے ہیں اور اربوں روپے کمالیتے ہیں۔

انہوں نے کہا میں نے خود سعودی عرب میں ایک منشیات سمگلر کے لئے تین سال تک کام کیا ہے۔ احمد علی بتایا کہ پاکستان سے منشیات "آئس” سمندر کے راستے کیمیکلز کومائع شکل میں بوتلوں میں سمگلز کیا جاتا ہے اور سعودی عرب پہنچا کر وہاں پر اس کو آئس کی شکل میں تبدیل کیا جاتا ہے۔

35سالہ احمد علی نے بتایا کہ سعودی عرب میں آج کل منشیات میں آئس کا کاروبار زیادہ ہے اور اجون کلے کے ڈیلرز یہاں پر آرام سے اپنے گھر سے وٹس ایپ کے ذریعے پیغامات جاری کرکے کاروبار کرتے ہیں۔

وٹس ایپ کا استعمال کیسے کیا جاتا ہے؟

احمد علی نے بتایا کہ مننشیات فروش سعودی عرب کے موبائل نمبر پر وٹس ایپ کھول دیتے ہیں جسے منشیات فروش  نے”اڈہ” کا نام دیا ہے اور اس وٹس ایپ نمبر پر آئس کے عادی لوگ  آئس لینے کے لئے میسج کرلیتے ہیں۔

سعودی عرب میں موجود کارندے کو جسے منشیات کے کاروبار سے وابستہ لوگ "مگاول” ٹھیکدار کہتے ہیں میسج کے زریعے آرڈر دیا جاتاہے کہ اتنا مال "منڈے” کو دے کر فلاں جگہ پہنچادیں۔ (منڈے مقامی سطح پرآئس کو سپلائی کرنے والے کو کہا جاتا ہے) اور جب منڈے اس مخصوص جگہ پر منشیات کو رکھ کر اس سے موبائل کے زریعے تصویر لے کر ڈیلرکو بھیج دیتا ہے تو وہی فوٹو ڈیلر آئس کے خریدار کو سینڈ کرکے محفوظ طریقے سے وہاں سے منشیات اٹھا لیتا ہے۔

احمد علی کے مطابق سعودی عرب کا موبائل نمبر جس پر صرف وٹس ایپ ہوتا ہے وہ نمبر پاکستان میں بند یا بلاک ہوتاہے اور صرف وٹس ایپ کے لئے انٹرنیٹ کے زریعے کنیکٹ کرکے منشیات کے بڑے ڈیلرز آرام سے گاؤں میں اپنے بنگلوں سے وٹس ایپ کے اڈے چلاتے ہیں اور اربوں روپے کے منشیات کا دھندہ کرتے ہیں۔

احمد علی نے بتایا کہ اس دھندے میں اکثر منڈے یا سپلائی کرنے والے گرفتار ہوجاتے ہیں باقی بڑے ڈیلرز سعودی عرب سے باہر بیٹھ کر گرفتاری سے محفظ ہوتے ہیں۔ احمد علی نے بتایا کہ میں تین سال تک اس کے ساتھ وابستہ رہا اور اب توبہ تائب ہوکر واپس آچکا ہوں۔

مقامی سماجی کارکن داود شاہ نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ مندنی کے علاقہ اجون کلے میں ستر کے قریب گھرانے آباد ہیں جس میں بیشتر لوگ منشیات کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس گاؤں کے لوگوں کا آپس میں منشیات کے زریعے پیسے کمانے اور بڑی بڑی گاڑیاں رکھنے کا مقابلہ ہوتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ یہ لوگ مقامی سطح پر منشیات کا دھندہ نہیں کرتے جس کی وجہ سے محفوظ رہتے ہیں جبکہ لوگوں کی شکایت پر کئی مرتبہ پولیس نے تلاشی کے دوران موبائل فونز بھی برآمد کئے ہیں اور ان کے خلاف مقدمات بھی درج کئے جاچکے ہیں۔

مندنی کے علاقے سے تعلق رکھنے والے محمد عباس نے اس حوالے سے بتایا کہ ان بین الاقوامی منشیات فروشوں کی وجہ سے تحصیل تنگی کے بہت سے لوگ سعودی عرب ،متحدہ عرب امارات اور چائینہ میں ڈرگ ٹریفکینگ میں گرفتار ہوکرجیلوں میں کئی عرسے سے قید کاٹ رہے ہیں جبکہ کئی نوجوانوں نے اپنی زندگی بھی ہاری ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس علاقے کے لوگوں میں ملک سے باہر منشیات سمگلنگ کرنے اور وہاں اس کا کاروبار کرنے کا رجحان بڑھ رہاہے کیونکہ اس علاقے میں روزگار کی کمی ہے  اور نوجوان اب باہر جاکر پیسے کمانا چاہتے ہیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button