پولیس اب تک پروفیسر بشیر کے بچوں کو کیوں بازیاب نہ کراسکی؟ عدالت
عثمان دانش
اسلامیہ کالج پشاور میں سکیورٹی گارڈ کے ہاتھوں قتل ہونے والے پروفیسر بشیر کی بیوہ کا بچوں کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے آئی جی پولیس خیبر پختونخوا اختر حیات خان گنڈاپور سے استفسار کیا کہ پولیس دو ماہ سے دو بچوں کو کیوں بازیاب نہ کراسکی، اگر متعلقہ ادارے مضبوط ہو جائے تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
پشاور ہائیکورٹ میں سماعت کے دوران جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے آئی جی پولیس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ابتدائی طور پر ایس ایچ او کو بلایا، پھر ایس ایس پی کو بلایا لیکن کیس میں کوئی خاطر خوا کامیابی نظر نہیں آئی اس لیے مجبورا آپ کو بلانا پڑا، اگر متاثرہ فریق کو پولیس امداد فراہم نہیں کر سکتی تو ہمیں بتایا جائے کہ ہم کس کو احکامات جاری کریں؟
اس دوران جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے سی سی پی او پشاور سے استفسار کیا کہ آپ لوگوں نے ابھی تک عدالتی حکم پر ان دو بچوں ضیاد اور علی بن احمد، جو کہ پروفیسر بشیر مرحوم کے بچے ہیں، کو بازیاب کرکے والدہ کے حوالے کیوں نہیں کیا؟
یہ بھی پڑھیں: اسلامیہ کالج میں پروفیسر کا قتل : ملزم کا عدالت میں جرم ماننے سے انکار، وجہ کیا ہے؟
درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ بچوں کو اپنے چچا لے گئے ہیں اور اسے ماں سے ملنے نہیں دیا جا رہا، ہم نے متعلقہ عدالت میں درخواست دی مگر کوئی شنوائی نہیں ہوئی جس کے باعث مجبورا خاتون کو ہائیکورٹ میں رٹ دائر کرنا پڑا۔
سی سی پی او پشاور نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے تمام مشتبہ علاقوں میں چھاپے مارے ہیں مگر انہیں بچوں کا کوئی سراغ نہ مل سکا، 20 دن کی مہلت دی جائے تاکہ بچوں کو بازیاب کرایا جا سکے۔
عدالت نے آئی جی پولیس سے استفسار کیا کہ سی سی پی او 20 دن کا وقت مانگ رہے ہیں جو بہت زیادہ ہے آپ کیا کہیں گے؟ آئی جی پولیس نے عدالت کو بتایا کہ متاثرہ خاتون سے انہوں نے ملاقات کی مگر بدقسمتی سے ابھی تک ہم ان بچوں کو بازیاب نہیں کراسکے، ہم ایف آئی اے کے ساتھ بھی رابطے میں ہیں اس لیے مناسب وقت دیا جائے تاکہ ان بچوں کو بحفاظت بازیاب کراسکیں۔
جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے آئی جی پولیس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر پولیس اور ادارے ان کی بازیابی میں ناکام رہتے ہیں تو ہمیں بتایا جائے کہ ہم کس کو احکامات دیں تاکہ ان بچوں کی بازیابی کو یقینی بنایا جا سکے۔
سیکرٹری عابد مجید نے عدالت کو بتایا کہ ان کے پاس جو رپورٹس ہیں ان کے مطابق پولیس بچوں کی بازیابی کے لیے بھرپور کوششیں کررہی ہے، مقدمہ بھی درج ہے اور اس کے ساتھ ایک مرکزی ملزم کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے جس سے تفتیش کی جارہی ہے۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ یہ پولیس کا کام ہے اور وہ بحثیت ہوم سیکرٹری اپنی ذمہ داریاں نبھائیں گے، عدالت جو بھی حکم دے گی ہم اس پر عمل درآمد کے پابند ہے۔
اس پر عدالت نے آئی جی پولیس اختر حیات گنڈاپور سے استفسار کیا کہ آپ کو کتنا وقت چاہئے جس پر آئی جی نے عدالت کو بتایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ آج شام تک ہی ان بچوں کو بازیاب کیا جائے کیونکہ یہ ہمارے لیے بھی چیلنجنگ کیس ہے جس پر عدالت نے پولیس کو 10 دن میں بچوں کو بازیاب کرکے ان کو والدہ کے حوالے کرنے کا حکم دیتے ہوئے ساعت 26 جولائی تک ملتوی کر دی۔
یاد رہے کہ رواں سال 19 فروری کو اسلامیہ کالج پشاور میں مبینہ طور پر تکرار کے بعد سیکورٹی گارڈ نے فائرنگ کرتے ہوئے انگلش ڈیپارٹمنٹ میں پڑھانے والے پروفیسر بشیر کو قتل کر دیا تھا۔