کرم فسادات: محصور قبائل نے افغانستان کے راستے طورخم آنے کی استدعا کردی
محراب آفریدی
ضلع کرم میں جاری فسادات میں پھنسے تری مینگل قبائل نے افغانستان نقل مکانی کرکے طورخم کے راستے پاکستان داخل ہونے کی استدعا کی ہے۔ قبائلی جرگہ نے لنڈی کوتل میں سیکیورٹی حکام اور ضلعی انتظامیہ سے ملاقاتیں کیں ہیں۔
حکام کے مطابق ضلع کرم میں جاری شیعہ سنی فسادات سے متاثرہ مینگل قبائل کے عمائدین نے کمانڈنٹ خیبر رائفل اور ضلعی انتظامیہ حکام سے الگ الگ ملاقاتیں کی۔ یہ ملاقاتیں لنڈی کوتل ایف سی چھاونی میں کی گئی۔ مینگل قبائلی جرگہ نے حکام سے مطالبہ کیا کہ ضلع کرم کے حالیہ خونریز فسادات میں مینگل قبیلہ تین اطراف سے محاصرے میں ہے، صرف افغانستان منتقلی کا راستہ کھلا ہے۔
زخمیوں کے علاج معالجہ میں شدید مشکلات کا سامنا ہے
جرگے نے استدعاء کی کہ قبائل افغانستان منتقل ہوکر طورخم کے راستے پاکستان داخل ہونا چاہتے ہیں۔ زخمیوں کے علاج معالجہ میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ خواتین بچے اور بزرگ سمیت سینکڑوں خاندان پھنس گئے ہیں۔ غذائی اشیاء کی بھی قلت ہے۔ اس حوالے سے حکام نے موقف اختیار کیا کہ وہ جرگہ کا موقف اعلی حکام تک پہنچائیں گے۔
اسسٹنٹ کمشنر لنڈی کوتل ارشاد خان نے اس حوالے سے ٹی این این کو بتایا کہ تری مینگل قبائل نے انکے ساتھ ملاقات کی ہے اور طورخم کے راستے نقل مکانی کرکے ملک میں داخل ہونے کی استدعا کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کی بنیادوں پر افغانستان کے بیمار افراد کو بھی طورخم کے راستے پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت دی جاتی ہے تاہم چونکہ یہ ایک بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہے لہذا اس میں بہت سارت سٹیک ہولڈز انوالو ہے ان سے مشاورت کے بعد ہی اس حوالے سے فیصلہ کرسکیں گے۔
لاشیں اٹھا اٹھا کے تھک چکے ہیں
ذرائع کے مطابق جرگہ ممبران میں ملک منور خان، ملک عاشق، خاد محمد، اقبال وزیر اور باقی مشران تھے۔ جرگے کی سربراہی کرنے والے سنی مسلک سے تعلق رکھنے والے ملک منور نے اس حوالے سے ٹی این این کو بتایا کہ انکو کئی اطراف سے گھیر لیا ہے اور انکو بہت مشکلات کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انکا قبیلہ لاشیں اٹھا اٹھا کے تھک چکا ہے، جب انکے لوگ کھیتوں میں جاتے ہیں تو انکو مار دیا جاتا ہے، جب کیس جیت لیتے ہیں تو بھی انکو نہیں چھوڑا جاتا، ڈیوٹی کرنے نہیں دیا جاتا لہذا وہ اس سے تنگ آچکے ہیں اور اب اس مسئلے کا حل چاہتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ حالیہ جھڑپوں کی وجہ سے انکے علاقے میں خوراک کی قلت پیدا ہوگئی ہے اور زخمیوں کو بھی مسائل کا سامنا ہے اس وجہ سے انہوں نے طورخم انتظامیہ سے درخواست کی ہے انکو بارڈر کے ذریعے پاکستان داخل ہونے کی اجازت دی جائے۔
ذرائع کے مطابق کرم میں حالیہ جھڑپوں کے دوران ایک سکول کو بھی نذر آتش کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے ایک ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں مقامی لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ وہی سکول ہے جہاں کچھ عرصہ قبل 8 اساتذہ کو قتل کیا گیا تھا۔
یاد رہے حالیہ جھڑپوں میں اب تک 11 افراد جاں بحق اور 77 زخمی ہوئے ہیں۔
ضلع کرم میں جھڑپیں کہاں اور کس کے مابین جاری ہے؟
اپر کرم میں علاقہ تری منگل (اہل سنت) اور پیواڑ و دیگر گاؤں (اہل تشیع) کے مابین پچھلے کئی مہینوں سے جھڑپیں جاری ہیں۔ دیگر علاقوں میں بوشہرہ (اہل سنت) اور ڈنڈر و دیگر گاؤں (اہل تشیع) کے مابین خون ریز جنگ جاری ہے۔ اپر ہی کرم کے تیری مقام غوزگھڑی مقبل، خومسئہ چمکنی (اہل سنت) اور کڑمان، کونج علیزئی و دیگر گاؤں (اہل تشیع) کے درمیان جھڑپیں جاری ہے۔
اسی طرح لوئر کرم میں خار کلی و دیگر گاؤں (اہل سنت) اور بالیش خیل و دیگر گاؤں (اہل تشیع) کے مابین جھڑپیں جاری ہیں۔ ان جھڑپوں کی نتیجے میں دونوں اطراف سے 9 سے زیادہ افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق کچھ روز قبل اپر کرم میں ڈنڈر (اہل تشیع) گاؤں کے مقام پر مبینہ طور پر نئی آبادی روکنے کیلئے بوشہرہ نامی (اہل سنت) گاؤں سے کچھ لوگ ڈنڈر گئے تو اس پر بات فرقہ واریت جنگ تک پہنچ گئی۔ اسی زمینی تنازعہ کے بعد فرقہ واریت جنگ پورے کرم تک پھیل گئی اور اب دونوں اطراف سے بڑے ہتھیاروں کا استعمال ہوتا ہے۔