جرائم

خیبر پختونخوا کے تعلیمی اداروں میں کتنے طلبہ منشیات کا استعمال کررہے ہیں؟

آفتاب مہمند

پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج 26 جون انسداد منشیات کا عالمی دن منایا جارہا ہے جس کا مقصد منشیات کی روک تھام سے متعلق شعور و آگاہی پھیلانا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق ہر گزرتے سال دنیا بھر میں منشیات کے استعمال میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی اس لت کا شکار ہورہی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں 50 لاکھ سے زائد افراد صرف منشیات کے استعمال کی وجہ سے لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔

تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کے حوالے سے ہیفا فاؤنڈیشن کے سی ای او ڈاکٹر نثار عادل کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے تعلیمی اداروں میں طلبہ کا جو میچور کلاس طبقہ ہے ان کی ہزاروں تعداد منشیات کے استعمال کا عادی بن چکے ہیں۔ ان کے بقول صوبے میں اس وقت 30 ہزار سے طلباء منشیات کا استعمال کررہے ہیں جبکہ تعلیمی اداروں میں طالبات کی تعداد اس سے بڑھ کر بتائی جاتی ہے۔

ڈاکٹر نثار کے مطابق پرانے زمانے میں نسوار، سگریٹ، چرس، شراب اور کوکین وغیرہ کا نشہ کیا جاتا تھا لیکن موجودہ وقت میں آئس اور مختلف اقسام کے انجکیشن جیسے نشہ آور مواد کا کثرت سے استعمال ہو رہا ہے۔ طلبہ سمجھتے ہیں کہ آئس استعمال کرنے سے انسان میں خوشی کے ہارمونز ایکٹیو ہوجاتے ہیں اور انہیں نیند نہیں آتی جس سے وہ بہتر طریقے سے پڑھائی کرسکتے ہیں لیکن یہ ایک غلط تصور ہے۔ ڈاکٹر نثار کا کہنا ہے کہ نشہ کرنے سے انسان اپنی ہوش کھو دیتا ہے اور جب نشہ اتر جائے تب انسان کو کچھ بھی یاد نہیں رہتا، آئس کا نشہ 36 سے 72 گھنٹوں تک رہتا ہے جس میں انسانی کو نیند نہیں آتی اور جاگتا رہتا ہے۔

نثار عادل کہتے ہیں طالبات آئس اور دیگر منشیات کا استعمال ہاسٹلز میں کرتی ہیں جبکہ طلبہ ہاسٹلز کے علاوہ باہر کسی محفوظ جگہ کی تلاش میں بھی رہتے ہیں۔

ان کا دعویٰ ہے کہ کچھ عرصہ قبل منشیات فروش طلبہ کو ہاسٹلز تک منشیات پہنچتے تھے اور اب بھی ایسا ہوگا تاہم اس کے علاوہ یونیورسٹی روڈ پر ایسے لوگ اور جہگیں ہیں جہاں باآسانی آئس ملتا ہے۔ حیات آباد میں بھی سہ پہر کے وقت سڑکوں پر کھڑی خواتین آئس فروخت کرتی ہیں اس لیے اب کسی بھی منشیات کا ملنا کوئی مشکل کام نہیں رہا۔

انہوں نے بتایا کہ اب یہ قانون نافذ کرنے والوں اداروں کی ذمہ داروں ہے کہ وہ منشیات کی روک تھام کے لیے ختمی اقدامات اٹھائیں کیونکہ آئس میں جو کیمکلز استعمال ہوتا ہے وہ بعض اوقات انسانوں کے لیے جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

دوسری جانب پشاور یونیورسٹی کے سنئیر پروفیسر ڈاکٹر یاسین اقبال سمجھتے ہیں کہ طلبہ و طالبات میں منشیات کے استعمال کی بڑی وجہ والدین کی جانب سے سختی نہ کرنا اور انہیں ضرورت سے زیادہ پیسے دینا ہے۔ ان کے مطابق آج کل کے والدین بچوں کی ہر اقدام پر نظر نہیں رکھتے اس لیے بچے بگڑ جاتے ہیں اور وہ غیر ضروری سرگرمیوں میں مصروف ہوجاتے ہیں جس میں ایک منشیات کا استعمال ہے۔

ان کے بقول کچھ سٹوڈنٹس محرومی کی وجہ سے بھی منشیات کے عادی ہوجاتے ہیں، ان میں کچھ ملکی حالات کی وجہ سے اپنی روشن مستقبل کے بارے میں فکر مند رہتے ہیں اور ناامیدی کی دنیا میں داخل ہوکر منشیات کی جانب راغب ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ جامعات اور خصوصی طور پر ہاسٹلز تک منشیات وغیرہ کس طرح پہنچائے جاتے ہیں، یہ تو یونیورسٹی اور ہاسٹلز انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس طرح کی سرگرمیوں پر کھڑی نظر رکھیں اور اس طرح کے اقدامات کی روک تھام کریں۔

دوسری جانب خیبر پختونخوا ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے آفیسر محمد خالد نے بتایا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ طالبات کو جامعات اور ہاسٹلز تک منشیات پہنچائے جاتے ہیں لیکن اس سلسلے میں محکمہ کی جانب سے کئی کارروائیاں کی گئی ہے اور طلبہ کو منشیات سپلائی کرنے والے ڈیلرز کو گرفتار کیا گیا ہے۔

Show More

Salman

سلمان یوسفزئی ایک ملٹی میڈیا جرنلسٹ ہے اور گزشتہ سات سالوں سے پشاور میں قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں کے ساتھ مختلف موضوعات پر کام کررہے ہیں۔

متعلقہ پوسٹس

Back to top button