جنوبی وزیرستان: مقامی جرگے نے پولیس انسپکٹر پر 3 لاکھ روپے جرمانہ عائد کردیا
مصباح الدین
جنوبی وزیرستان کے تحصیل وانا میں احمدزئی زلی خیل قبیلے کے قومی مشران نے حاضر سروس پولیس انسپکٹر سیف اللہ کے خلاف قبائلی روایات کے مطابق انوکھا فیصلہ کرتے ہوئے 3 لاکھ روپے جرمانہ عائد کردیا جبکہ پولیس نے جرگے کے فیصلے کو مسترد کر دیا ہے۔
جرگے نے سپین تھانہ ڈیم کے انچارج سیف اللہ پر ایک شخص کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے پر جرمانہ عائد کیا ہے تاہم پولیس نے جرگے کے فیصلہ کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا تھانہ انچارج نے قانون کے مطابق ایف آئی آر درج کی ہے۔
پولیس کے مطابق چند روز قبل گومل زم ڈیم کے قریب زلی خیل قبیلے کے علاقے میں چھاپے کے دوران ایک شخص سے اسلحہ برآمد ہوا جس پر ان کیخلاف انسپکٹر سیف اللہ نے کارروائی کرتے ہوئے ایف آئی آر درج کرائی تھی۔
اس حوالے سے مقامی صحافی نور علی نے ٹی این این کو بتایا کہ احمدزئی زلی خیل قبیلہ اپنے تحفظ کے لیے اسلحہ رکھتے ہیں جبکہ انہوں نے پولیس کی کارروائی کے خلاف جرگہ منعقد کیا جس میں ایف آئی آر درج کرنے والے انسپکٹر سیف اللہ، جن کا تعلق زلی خیل قوم کے برات خیل علاقے سے ہیں، کے گھر کو مسمار کرنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن بااثر لوگوں کی اصرار پر گھر کی مسماری کا فیصلہ واپس لیا گیا اور متفقہ فیصلہ کیا گیا کہ سیف اللہ تین لاکھ روپے جرمانہ ادا کریں گے۔
ٹی این این نے جب جرگہ میں موجود ایک مقامی شخص سے رابط کیا تو انہوں نے یہ کہہ کر موقف دینے سے انکار کردیا کہ یہ پوری قوم کا مشترکہ فیصلہ ہے اور اس پر کوئی بھی شخص انفرادی طور موقف نہیں دے سکتا جبکہ سوشل میڈیا پر خبر چلنے پر بھی جرگہ ممبران کو تشویش ہے۔
اس حوالے سے ایڈووکیٹ نعمان محیب کاکا خیل نے ٹی این این کو بتایا کہ پختونخوا آرمز ایکٹ 2013 کے تحت پولیس غیر لائیسنس یافتہ اسلحہ ضبط کر سکتے ہیں اور اس پر اسلحہ رکھنے والوں کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص اس دوران پولیس کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے تو اس کیخلاف پاکستان پینل کوڈ کے تحت دو سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ کاکا خیل نے بتایا کہ پولیس آفیسر پر جرمانہ عائد کرنا غیر قانونی عمل ہے اور اس پر جرگہ کے ہر ممبر پر دو دو لاکھ روپے جرمانہ عائد ہو سکتی ہے۔
ایڈوکیٹ نعمان کے مطابق گھروں کو غیر قانونی طور پر مسمار کرنے پر پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 436 کے تحت عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے، فاٹا خیبر پختونخوا میں ضم ہو چکا ہے اور اب وہاں روایتی جرگوں کے فیصلوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے، حکومت کو چاہیے کہ جرگہ ممبران کیخلاف قانونی کارروائی کریں تاکہ وہ اس بات کو سمجھ سکے کہ اب ان کے پاس فیصلوں کا اختیار نہیں ہے۔
دوسری جانب ضلعی پولیس آفیسر کے مطابق تھانہ انچارج نے قانون کے مطابق کاروائی کرتے ہوئے ایف آئی آر درج کی ہے۔
پولیس کے مطابق اگر برات خیل قبیلے کے کسی فرد نے 3 لاکھ روپے جرمانہ ادا کیا ہے تو اس کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی تاہم زیلی خیل قوم اپنے فیصلے پر ڈٹ کر کھڑی ہے اور ان کا موقف ہے کہ قبائلی روایات کے مطابق قومی جرگے نے جو فیصلہ کیا ہے اس پر عمل درآمد لازمی ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر کل تک جرمانہ ادا نہیں کیا گیا تو ایف آئی آر درج کرنے والے پولیس آفیسر کا گھر مسمار کیا جائے گا۔