جرائم

"9 مئی کے واقعات ہمارے لئے 9/11 ہے”

رفاقت اللہ رزڑوال

پاکستان کے فوج نے کہا ہے کہ کہ فوجی تنصیبات اور نجی املاک کے توڑ پھوڑ میں ملوث ملزمان کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ سمیت پاکستان کے متعلقہ قوانین کے تحت قانونی کارروائی ہوگی لیکن سیاسی، قانونی اور دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فوجی قوانین بنیادی طور فوجی افراد کیلئے ہوتے ہیں لیکن اگر سویلین آرمی تنصیبات پر حملہ کرے تو  وہ ان قوانین کی زد میں آتے ہیں۔

پیر کی رات پاکستان آرمی کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ جی ایچ کیو راولپنڈی میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی صدارت کور کمانڈر اجلاس منعقد ہوا جس میں ملک کے اندرونی اور بیرونی سیکورٹی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔

آئی ایس پی آر نے بیان میں کہا ہے کہ اجلاس میں سیاسی مفادات کے حصول کیلئے پیدا ہونے والے امن و امان کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور کہا گیا ہے کہ فوجی تنصیبات، تاریخی عمارات اور شہداء کی تصاویر کی بے حرمتی اور نذرآتش کرنے کا ایک منظم منصوبہ بنایا گیا تھا۔

بیان میں کہا گیا کہ اب تک جمع کیے گئے ناقابل تردید شواہد کی بنیاد پر مسلح افواج ان حملوں کے منصوبہ سازوں، اکسانے والوں، مدد کرنے والوں اور جرم سرانجام دینے والوں سے مکمل طور پر آگاہ ہے اور اس حوالے سے غلط بیانی مکمل طور پر فضول ہے۔

کورکمانڈرز نے کہا کہ فوجی تنصیبات اور نجی املاک کے توڑ پھوڑ میں ملوث ملزمان کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ سمیت پاکستان کے متعلقہ قوانین کے تحت قانونی کارروائی ہوگی۔

پاکستان اس وقت سیاسی تناؤ، امن عامہ اور معیشت کی نازک صورتحال سے گزر رہا ہے جس پر دفاعی، سیاسی اور قانونی ماہرین اس بات پر متفق ہے کہ اس ساری سیاسی تناؤ میں نقصان ملک کا ہی ہوگا۔

قانونی ماہر شبیر حسین گگیانی نے ٹی این این کو آرمی ایکٹ کے حوالے سے بتایا کہ قانون کے مطابق آرمی ایکٹ عام لوگوں کو پر لاگو نہیں کیا جاسکتا ہے اور یہ صرف فوجیوں یا فوج سے تعلق رکھنے والے افراد کیلئے قابل استعمال قانون ہے جبکہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ وہ قانون ہے جس کے تحت فوجی یا فوجی ادارے سے تعلق رکھنے والا شخص فوج، خفیہ ایجنسیوں اور حکومت کے پوشیدہ راز عوامی سطح پر افشاں کرے جس سے اداروں یا ملک کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو۔

شبیر حیسن کہتے ہیں ” آرمی ایکٹ کے نفاذ کا موقع صرف اس وقت آیا تھا جب آرمی پبلک سکول پر حملہ ہوا، اس قانون کے نفاذ کیلئے آئین اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کی گئی تو پہلے 2015 سے 16 تک اور پھر 2016 میں توسیع دے کر 17 تک بڑھایا گیا جسکے تحت دہشتگردوں کو ملٹری کورٹس کے تحت سزائیں دی گئی، اب چار سال گزرنے کے بعد دوبارہ ترمیم نہیں کی گئی ہے اسلئے یہ ایکٹ سویلین پر لاگو نہیں ہوسکتا”۔

حسین کہتے ہیں "آرمی ایکٹ کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے جاتے ہیں اب چونکہ فوجی عدالتیں موجود نہیں ہے تو ایسے مقدمات کورٹ مارشل میں چلائے جاتے ہیں، کورٹ مارشل فوجی اہلکاروں اور اس سے وابستہ کے خلاف کیسز نمٹاتے ہیں۔ اسی طرح آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت درج مقدمات کا اختیار بھی آرمی کے پاس نہیں ہوتا بلکہ اس کیلئے خصوصی عدالت قائم کی جائے گی”۔

آئی ایس پی آر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ فوجی تنصیبات پر حملے کرنے والے مجرمان، توڑ پھوڑ کرنے اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف تحمل کا مزید کوئی مظاہرہ نہیں کیا جائے گا۔ فوج نے عہد کیا ہے کہ پاکستان کے عوام کے تعاون کے ساتھ پاک فوج پاکستان کے دشمنوں کے تمام شرپسند منصوبوں کو شکست دے گی۔

دفاعی تجزیہ کار بریگیڈئر (ر) محمود شاہ کا کہنا ہے آرمی ایکٹ یا آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت اگر کسی شخص پر جرم ثابت ہوجائے تو اسے کم از کم دس سال تک قید یا سزائے موت ہوسکتی ہے۔
محمود شاہ نے ٹی این این کو بتایا ” بنیادی طور پر یہ قوانین فوجی اہکاروں یا اس ادارے سے وابستہ افراد پر لاگو ہوتے ہیں لیکن ایسے عام شہری جو فوجی تنصیبات پر حملہ کرے یا نقصان پہنچائے تو انکو کورٹ مارشل کے ذریعے سزا دی جاسکتی ہے”۔

انہوں نے کہا کہ یہ مقدمات سول عدالتوں میں چیلنج نہیں کئے جاسکتے ہیں، اس مقدمے کے تحت جرم کی نوعیت کو دیکھا جاتا ہے اگر جرم معمولی ہو تو اس کی سزا دس سال اور اگر زیادہ ہو تو اسکی سزا عمر قید یا سزائے موت ہوسکتی ہے۔

جب بریگیڈئر (ر) محمود شاہ سے یہ سوال ہوا کہ عمران خان کا دعویٰ ہے کہ 9 مئی کے ہنگاموں میں ایجنسیوں کے اہلکار شامل تھے اور غیرجانبدار کمیشن میں ہم ثبوت پیش کرسکتے ہیں تو محمود شاہ نے کہا ‘اب تک کس عدالت سے عمران خان کو سزا ملی ہے؟ انکے جھوٹ کی کوئی حد موجود ہے؟ پی ٹی آئی کے کارکنوں کی باقاعدہ ویڈیوز اور آڈیوز ثبوت موجود ہیں جنہوں نے شہداء کی تصاویر کی بے حرمتی کی ہے، ہمارے فخریہ جہازوں کو اور قومی ورثوں کو آگ لگا دی تھی اور یہ کام صرف دشمن ہی کرسکتا ہے”۔

محمود شاہ نے 9 مئی کے واقعات کو 9/11 کے طور یاد کیا اور کہا "میرے خیال میں 9 مئی کے واقعات ہمارے لئے 9/11 ہے، 9/11 کے بعد امریکہ نے دنیا کے ساتھ کیا کیا بالکل اسی طرز پر ہمیں آگے بڑھنا چاہئے کیونکہ نچھلے رینک کے جوانوں کو علم ہے کہ یہ عمل کس نے اورکس کے کہنے پر کیا۔ اگر ایکشن نہیں لیا گیا تو انکے حوصلے پست ہوجائیں گے”۔

مگر پاکستان تحریک انصاف 9 مئی کے ہنگاموں کو ایک فطری عمل سمجھتی ہے۔ جاری ایک اعلامئے میں کہا ہے کہ پی ٹی آئی کے چیرمین کو 9 مئی کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے رینجرز کے ذریعے اغواء کیا گیا جس کے نتیجے میں پرامن احتجاج ایک فطری نتیجہ تھا۔

فوجی بیان کے ردعمل میں منگل کے روز پاکستان تحریک انصاف کے آفیشل ٹویٹر اکاؤنٹ سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ آئین پاکستان پرامن احتجاج کرنے کی ضمانت دیتا ہے اور کسی بھی قسم کی پیچیدہ صورتحال کا حل اس عمرانی معاہدے میں ہے۔

پی ٹی آئی اعلامئے کے مطابق ” ناقابلِ تردید شواہد دستیاب ہیں کہ پرامن مظاہرین کی صفوں میں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مسلّح انتشار پسند داخل کئے گئے، ان انتشار پسندوں نے ایک جانب جلاؤ گھیراؤ کو ہوا دی تو دوسری جانب پرامن اور نہتے شہریوں پر گولیاں برسائیں، انتشار پسندوں کی فائرنگ سے درجنوں معصوم شہری شہید جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے”۔
جاری اعلامئے میں کہا گیا ہے کہ پارٹی کے پاس انتشار میں ملوث ایجنسیوں کے لوگوں کے کافی ثبوت موجود ہیں جوہم پیش کرسکتے ہیں، جس کیلئے سپریم کورٹ کے ججز پر مشتمل ایک بااختیار کمیشن تشکیل دینے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
سیاسی تجزیہ کار 9 مئی کے واقعات کو افسوسناک قرار دے رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ اپنے جرم کی سزا ضرور بھگتیں گے لیکن فائدہ اسی میں ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز آپس میں بیٹھ کر ملک کی سیاسی عدم استحکام کی حل کیلئے بات چیت کرے۔

اسلام آباد میں مقیم سینئر صحافی حسن خان نے ٹی این این کو بتایا کہ سیاسی حالات ٹھیک نہیں، ایک دوسرے پر مزید کیچڑ اچالنے سے بہتر ہے کہ آپس میں بیٹھ کر مسائل کا حل نکالا جائے ورنہ اس کے مستقبل پر بُرے اثرات مرتب ہونگے۔
انہوں نے آرمی ایکٹ کے نفاذ پر بتایا "آج اسلام آباد میں نیشنل سیکورٹی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوگا اور ہوسکتا ہے کہ اس مسئلے پر بات چیت ہوجائے لیکن یہ ایک قابل بحث مسئلہ ہے کیونکہ اگر یہ ایکٹ لاگو کیا گیا تو پھر اس پر انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اعتراضات کرسکتی ہیں تو اس حوالے سے ان مسائل کو مدنظر رکھ کر بات چیت کی جائے گی”۔
حسن خان نے پی ٹی آئی کے مستقبل کے حوالے سے بتایا کہ کسی سیاسی پارٹی کے خلاف کاروائیوں سے جماعت ختم نہیں ہوسکتی البتہ کمزور ضرور ہوجاتی ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ پی ٹی آئی ہو، حکومت ہو یا ادارے انہیں چاہئے کہ سیاسی تناؤ سے نکل آئیں اور ملک کی فلاح و بہبود کے بارے میں سوچیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button