گندم کی کٹائی میں مصروف خاتون کو مبینہ طور پر جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا
آفتاب مہمند
گندم کی کٹائی میں مصروف خیبر پختونخوا کے ضلع لکی مروت کی رہائشی خاتون کو میانوالی میں مبینہ طور پر جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
تفصیلات کے مطابق پنجاب کے ضلع میانوالی کے علاقہ کمرمشانی کی حدود میں ایک خاتون سے مبینہ طور پر جنسی زیادتی کی گئی ہے۔ زرین بی بی نامی خاتون کے شوہر نے میانوالی پولیس کو رپورٹ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ لکی مروت کے رہائشی ہیں اور محنت مزدوری کرنے کے لئے اہل خانہ سمیت میانوالی منتقل ہوئے ہیں اور آج کل وہ پیسوں کے عوض میانوالی کے علاقہ کمر مشانی میں گندم کی کٹائی میں مصروف عمل ہیں۔
انہوں نے پولیس کو بتایا کہ کہ ان کی اہلیہ ایک مقامی کھیت میں گندم کی کٹائی میں مصروف تھی کہ کمر مشانی ہی کا ایک رہائشی شہزاد خان نامی شخص نے بندوق کی نوک پر ان کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا لہذا پولیس ملزم کے خلاف کارروائی عمل میں لائے۔
میانوالی پولیس کے مطابق رپورٹ پر کارروائی کرتے ہوئے ملزم کو گرفرار کرلیا ہے تاہم کمر مشانی میں مقامی ذرائع سے معلوم ہوا کہ ملزم نے عدالت سے عبوری ضمانت حاصل کرلی ہے۔
مقامی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ملزم شہزاد نے اس پہلے بھی چار خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا ہے جبکہ وہ کھلے عام اسلحہ پر لوگوں کو ڈراتا دھمکاتا ہے۔
دوسری جانب خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والی سماجی کارکن طاہرہ کلیم میانوالی میں زرین بی بی ریپ کیس کے بارے میں کہتی ہیں کہ اگر ملزم کو پہلے والے ریپ کیسز میں ضمانت نہ مل جاتی تو آج زرین بی بی اور دیگر تین خواتین کی عزت بچ جاتی اور چار گھرانے محفوظ رہتے لیکن یہ معاشرے کی بدقسمتی ہے کہ انٹی ریپ لاء یا انٹی ریپ انوسٹیگیشن اینڈ ٹرائل آرڈیننس جیسے قوانین کے باوجود ایسے ملزم آزاد گھوم پھر رہے ہیں اور ان کو قانون کا کوئی پرواہ نہیں۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ شہزاد جیسے ملزم سمجھتے ہیں کہ قانون نے ویسے بھی ان پر ہاتھ نہیں ڈالنا جبکہ ایسے عناصر سے مستقبل میں بھی معاشرہ اور خصوصا خواتین محفوظ نہیں رہیں گی۔
طاہرہ کے بقول خواتین کام کاج، محنت مزدوری اور نوکریوں کی غرض سے ضرور نکلیں گی، جہاں تحفظ کا معاملہ ہے اپنے گھر والوں کو چاہئیے کہ وہ ان کو اپنی حفاظت کے تدابیر سکھائیں جبکہ خواتین پر گھروں سے نکلنے پر پابندیاں مسئلے کا حل نہیں اور ایسا بھی ممکن نہیں کہ زرین بی بی جیسے محنت کش خاتون اسلحہ اٹھا کر مزدوری بھی کریں اور اپنا تحفظ بھی کریں۔
ان کا مطالبہ ہے کہ خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والے ملزمان کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے اور معاشرہ بھی ایسے اشخاص پر کھڑی نظر رکھے جبکہ حکومت کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس قسم واقعات کی روک تھام کے لئے اقدامات اٹھائیں۔
واضح رہے کہ ایچ آر سی پی کے سال 2022 کے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خواتین کے ریپ کسیز میں اضافہ ہوا ہے اور سال 2022 کے دوران ملک بھر میں 2 ہزار سے زائد خواتین کو زبردستی جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے جن میں سب سے زیادہ خواتین پنجاب میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنی ہیں۔