جرائم

سانحہ بارکھان: گراں بی بی زندہ ہے تو پھر لاش کس کی ہے؟

عبدالکریم

کوئٹہ: بارکھان واقعے میں ایک نیا موڑ، گراں بی بی مبینہ طور پر اپنے بچوں سمیت بازیاب ہو گئیں۔

کوہلو لیویز کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آیا ہے کہ ایک آپریشن کے دوران خاتون اور ان کے بچوں کو بازیاب کر لیا گیا ہے۔

دوسری جانب بارکھان میں اس واقعہ کے خلاف آل پاکستان مری اتحاد کا دھرنا تیسرے روز بھی جاری رہا جس میں دونوں مقتول نوجوانوں کے والد خان محمد بھی شریک ہوئے۔

اس موقع پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے خان محمد مری کا کہنا تھا کہ برآمد ہونے والی لاشوں میں سے دو لاشیں ان کے بیٹوں، محمد نواز اور عبدالقادر، کی ہیں جنہیں سردار عبدالرحمان کھیتران نے مارا ہے۔

خان محمد کے مطابق وہ سردار عبدالرحمان کھیتران کے ملازم تھے اور ان کی نجی جیل سے فرار ہوئے ہوئے تھے۔

دوسری جانب لیویز کا کہنا ہے کہ دو مختلف کارروائی میں ڈیرہ بگٹی بارکھان بارڈر ایریا سے محمد خان کے 2 بیٹے جبکہ 3 افراد، گراں ناز ان کی بیٹی اور ایک بیٹا، اس سے قبل دکی بارکھان بارڈر ایریا سے بازیاب کرائے گئے تھے۔

لیویز کے مطابق محمد خان کے اہلخانہ کے تمام 6 افراد سرکار کی حفاظتی تحویل میں ہیں۔

یاد رہے خان محمد مری کے دو بیٹوں اور ایک نامعلوم خاتون کی لاش گزشتہ دنوں بارکھان کے ایک کنویں سے برآمد ہوئیں تھیں۔

دوسری جانب بلوچستان پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ بارکھان میں 3 افراد کے قتل کے شبہ میں صوبائی وزیر سردار عبد الرحمان کھیتران کو حراست میں لیا گیا ہے اور اسپیشل انوسٹی گیشن ٹیم نے صوبائی وزیر سے تفتیش شروع کر دی ہے جبکہ واقعہ میں مزید گرفتاریاں بھی متوقع ہیں۔

سردار عبدالرحمن کھیتران کا موقف

سردار عبدالرحمن کھیتران نے گرفتاری سے قبل ٹرائبل نیوز نیٹ ورک اور مختلف ٹی وی چینلز سے بات کرتے ہوئے اس دعوے کی تردید کی کہ بارکھان واقعہ میں وہ ملوث ہیں۔ سردار کیتھران کے مطابق ان کے چوتھے نمبر کا بیٹا انعام شاہ ان کے خلاف سازش کر رہا ہے اور وہ یہ عمل 2013 کے انتخابات سے لے کر اب تک کرتا آ رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب بھی انتخابات آتے ہیں تو اس طرح کی چیزیں ان کے خلاف میڈیا اور دوسرے ذرائع سے سامنے آتی ہیں تاکہ ان کی ساکھ خراب ہو اور انتخابات میں ان کو نقصان پہنچے۔

سردار عبدالرحمن کے مطابق ان کے بیٹے انعام شاہ کی خواہش ہے کہ وہ قبیلے کا سردار بنے جبکہ وہ اپنے بڑے بیٹے کو سردار بنانا چاہتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ انعام شاہ ان کی مقامی بیوی کا بیٹا ہے جبکہ ان کا بڑے بیٹے کی ماں لاہور سے ہے اور انعام شاہ کو یہ بات ہضم نہیں ہوتی۔

دوسری جانب سردار عبدالرحمن کھیتران کے بیٹے انعام شاہ نے سب سے پہلے ایک مغوی خاتون کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کی تھی جس کے بارے میں کہا جاتا رہا کہ کہ وہ سردار عبدالرحمن کھیتران کی نجی جیل میں قید ہے۔ بعد میں خان محمد مری نامی شخص نے سوشل میڈیا پر جاری ویڈیو میں دعویٰ کیا کہ یہ ان کی اہلیہ گران ناز ہیں جبکہ ان کے دوسرے بچے بھی سردار عبدالرحمن کھیتران کی قید میں ہیں جس کے بعد ان میں سے دو کی لاشیں کنویں سے برآمد ہوئیں۔

دھرنے میں رکھی خاتون کی لاش کس کی ہے؟

پولیس سرجن ڈاکٹر عائشہ فیض نے گزشتہ رات میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ کنویں سے ملنے والی لاش 17 یا 18 سالہ لڑکی کی ہے جسے زیادتی کے بعد قتل کیا گیا ہے۔

یاد رہے دھرنے سے خاتون کی لاش کو سول ہسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں سرجن عائشہ فیض نے پوسٹ مارٹم کیا تھا۔

ڈاکٹر عائشہ کے مطابق مقتولہ کے ساتھ جنسی زیادتی اور تشدد کیا گیا ہے اور اس کے سر پر تین گولیاں ماری گئی ہیں جبکہ چہرے اور گردن پر تیزاب پھینکا گیا ہے تاکہ وہ پہچانی نہ جائے۔

دھرنا شرکاء کے مطالبات کیا ہیں؟

دھرنا کے شرکاء کا مطالبہ ہے کہ عبدالرحمن کھیتران کو گرفتار کر کے ڈی سیٹ کیا جائے، ان کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے اور لاشوں کا پوسٹ مارٹم کیا جائے۔

سانحہ بارکھان کا پس منظر

گزشتہ دنوں بارکھان سے گراں ناز مری نامی ایک خاتون کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں وہ قرآن پاک ہاتھ میں لئے اپیل کر رہی ہیں کہ مجھے سردار عبدالرحمان کھیتران کی قید سے آزاد کیا جائے۔

بعدازاں ان کے شوہر خان محمد مری بھی یہ دعویٰ کرتے ہوئے سامنے آئے کہ 2019 میں سردار عبدالرحمان کھیتران نے اپنے منحرف بیٹے انعام کھیتران کے خلاف گواہی نہ دینے کی پاداش میں میری بیوی، بیٹی اور بیٹوں کو قید کیا تھا۔

جب سردار عبدالرحمان کھیتران کے آبائی کلی حاجی کوٹ بارکھان میں واقع ان کے گھر سے دو کلومیٹر دور ایک کنویں سے تین افراد کی لاشیں ملیں تو خان محمد مری نے دعویٰ کیا کہ یہ ان کی بیوی اور دو بیٹوں کی لاشیں ہیں جنہیں سردار عبدالرحمان کھیتران نے قتل کروایا ہے۔

یہ معاملہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا، میتوں کو بارکھان سے کوئٹہ لایا گیا جہاں مری قبائل نے وزیر اعلیٰ ہاؤس کے سامنے دھرنا دیا جس پر سرکار حرکت میں آ گئی اور ڈی آئی جی کی سربراہی میں ایک جے آئی ٹی کی تشکیل کا اعلان ہوا تاہم بلوچستان کی سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اور مری قبائل نے جے آئی ٹی کو مسترد کرتے ہوئے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل پر زور دیا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button