پولیس لائنز پشاور حملہ: معاملہ 2009 اور 2014 سے مختلف ہے
محمد فہیم
پیر کے روز پشاور کی پولیس لائنز کی مسجد میں دوپہر کی نماز کے دوران حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا جس کے نتیجہ میں 93 افراد جاں بحق جبکہ 200 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ اس حملے نے جہاں پولیس کو ورطہ حیرت میں مبتلا کر دیا ہے وہیں سکیورٹی اداروں کی اپنی سکیورٹی پر بھی سوالات اٹھ گئے ہیں، حملے کے بعد صوبائی حکومت کی جانب سے اعلامیہ جاری کرتے ہوئے سول سیکرٹریٹ میں داخل ہونے والی ہر گاڑی کی تلاشی لینے کی ہدایت کی گئی ہے تاہم سانپ گزرنے کے بعد لکیر پیٹنے کا اب کیا فائدہ، جس نے نقصان پہنچانا تھا پہنچا دیا۔
خیبر پختونخوا پولیس گزشتہ کئی ماہ سے مسلسل نشانہ پر ہے تاہم پشاور پولیس لائنز کی مسجد کو نشانہ بنایا جائے گا یہ بات شاید پولیس کیلئے بھی حیران کن ہے۔ کالعدم تحریک طالبان نے اس حملہ سے خود کو جدا کر دیا ہے جس کے بعد اس حملے سے متعلق مزید نئے سوالات کو جنم ملا ہے۔
تجزیہ کار اور سابق بریگیڈئیر سعد محمد کے مطابق انسپکٹر جنرل پولیس سے لے کر اس مقام کے تمام ذمہ دار سکیورٹی افسران و اہلکاران کو اب مزید اس عہدے پر نہیں رہنا چاہئے، جب وہ ایک مقام کی سکیورٹی ہی نہیں کر سکتے تو پھر وہ کس لئے ان کرسیوں پو براجمان ہیں، ان شہداء کا پوچھنا چاہئے جو ہم نہیں کرتے، ماضی میں ایسے واقعات ہوئے اور آنکھیں بند کر لی گئیں، اگر اس وقت ذمہ داران کے خلاف کارروائی ہوتی تو آج ذمہ داران جاگ رہے ہوتے اور ایسے واقعات کی روک تھام ممکن ہوتی۔
بریگیڈیئر (ر) سعد محمد کہتے ہیں کہ صورتحال اب 2009 اور 2014 سے مختلف ہے، دہشت گرد کسی ایک جگہ پر منظم نہیں ہیں بلکہ مختلف علاقوں میں پھیل چکے ہیں اس لئے ان کیخلاف کوئی بڑا آپریشن مسئلے کا حل نہیں ہو سکتا، سکیورٹی اداروں کو اپنی انٹیلی جنس بہتر بنانی ہو گی اور انٹیلی جنس کی بنیاد پر ہی کارروائیاں کرتے ہوئے دہشت گردوں کو ختم کرنا ہو گا۔
پولیس لائنز میں داخلہ عام شہری کیلئے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے تاہم دہشت گرد انتہائی سکون اور آرام سے پولیس لائنز کی مرکزی مسجد تک پہنچ گیا اور خیبر پختونخوا پولیس تاحال بے خبر ہے کہ وہ کس طرح یہاں تک پہنچ گیا؟
سنٹرل پولیس لائنز میں داخل ہونے کا صرف ایک ہی راستہ ہے جس پر آنے کیلئے پشاور چھاﺅنی میں داخل ہونا پڑتا ہے؛ اس چیک پوسٹ پر عمومی طور پر شناخت نہیں دیکھی جاتی، اس کے بعد سب سے پہلے سول سیکرٹریٹ میں داخل ہوتے ہوئے چیک پوسٹ سے گزرنا پڑتا ہے اور اپنی شناخت کرانی پڑتی ہے۔
دوسری چیک پوسٹ کے بعد پولیس لائنز میں داخل ہوتے ہوئے ایک چیک پوسٹ سے گزرنا پڑتا ہے جو داخلی راستے پر ہے، پیدل چلنے والوں کیلئے الگ راستہ ہے، وہ ایک بار جامع تلاشی سے گزرتے ہیں اور پھر پارکنگ ایریا کے بعد پولیس لائنز میں داخل ہونے کیلئے اپنے نام کی انٹری کرتے ہوئے متعلقہ ملنے والے شخص کا نام بتاتے ہیں، انٹری کرتے ہوئے اپنا شناختی کارڈ وہیں چھوڑنا ہوتا ہے۔
پھر پولیس لائنز کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے؛ ہر حصے کیلئے الگ الگ رنگ کا کارڈ رکھا گیا ہے، ملاقاتی کو جس شخص یا دفتر میں کام ہے اس حصے کیلئے متعلقہ رنگ کا کارڈ دیا جاتا ہے۔ اور ملاقاتی کو پولیس لائنز میں کسی اور جگہ جانے کی اجازت بھی نہیں ہوتی۔
لیکن اتنی سخت سکیورٹی کے باوجود حملہ آور مسجد تک پہنچ گیا اور حملہ کرنے میں کامیاب ہو گیا جبکہ حملے کے کئی گھنٹے بعد بھی آئی جی پولیس حملہ آور کے آنے والے راستے سے بے خبر ہیں۔
تجزیہ اور سینئر صحافی افتخار فردوس کہتے ہیں کہ یہ حملہ مسلسل ہونے والے حملوں کی کڑی ہے، جنوبی اضلاع میں بھی پولیس کو نشانہ بنایا گیا، پشاور کے نواحی علاقوں میں بھی پولیس کو نشانہ بنایا گیا اور اب پولیس لائنز پر حملہ کیا گیا، گزشتہ ایک سے ڈیڑھ سال میں سب سے زیادہ پولیس کے اہلکار شہید اور زخمی ہوئے ہیں، ہر دوسرے روز پولیس اہلکار کا جنازہ ہوتا ہے اور پولیس خود بھی تسلیم کرتی ہے کہ پولیس اس جنگ کیلئے موزوں نہیں ہے، جو حملہ ہوا ہے وہ صرف مسجد میں نہیں ہوا بلکہ اس کے ساتھ ہی کاﺅنٹر ٹیررازم کا ہیڈکوارٹر، چیف کیپیٹل سٹی پولیس اور دیگر اہم دفاتر ہیں یہاں تک خودکش کا پہنچنا کوتاہی اور غفلت ہے۔
سینئر صحافی اور پشاور میں ہم نیوز کے بیورو چیف طارق وحید کہتے ہیں کہ اس حملے کے بعد سے اب تک پولیس خود بھی سمجھنے سے قاصر ہے کہ ان کے ساتھ ہوا کیا ہے، یہ مقام جہاں یہ حملہ ہوا ہے یہاں سے پولیس پورے شہر کی منصوبہ بندی کرتی ہے، یہاں سے آپریشنز کیلئے لائحہ عمل مرتب کیا جاتا ہے، پالیسیاں بنتی ہیں اور وہی مقام خود محفوظ نہیں ہے، اس مقام پر علامتی سکیورٹی ہوتی ہے لیکن حقیقی سکیورٹی نہیں ہوتی، اب تک سی سی ٹی وی فوٹیج کا سامنے نہ آنا بھی حیران کن ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ کل کو کہہ دیا جائے کہ سسٹم میں مسئلہ تھا اس لئے سی سی ٹی وی فوٹیج ریکارڈ ہی نہیں ہو سکی ہے۔
طارق وحید کا کہنا تھا کہ افسوس اس بات کا ہے کہ ہم ایسے سانحات سے سیکھتے نہیں ہیں، چند روز تک سکیورٹی انتہائی سخت ہو گی، چیکنگ بھی سخت کر دی جائے گی اور ہر جگہ قانون کی عمل داری ہو گی لیکن آہستہ آہستہ ہم سب بھول جائیں گے، یہ واقعہ بھی دو سے تین ہفتوں بعد کسی کو یاد نہیں ہو گا، اگر آپ آج بھی کسی ذمہ دار شخص سے پوچھیں کہ آرمی پبلک سکول حملہ کے بعد تیار کئے جانے والے نیشنل ایکشن پلان کے نقاط کیا ہیں تو انہیں خود بھی یاد نہیں ہو گا ایسے میں اس پر عمل درآمد کیسے ممکن ہے؟