جرائم

ماریہ مہمند: ”اس کے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ سجی رہتی تھی”

کائنات علی

لاہور کے تھانہ مناواں کی حدود میں 10 سالہ بچی ماریہ کو قتل کر کے نعش سوئمنگ پول میں ڈبونے والا درندہ صفت ملزم پولیس کی حراست میں ہے، جبکہ متاثرہ خاندان کے ساتھ ساتھ ملک کے تمام انصاف پسند شہریوں بالخصوص پختونوں کو امید ہے کہ ملزم کو کیفر کردار تک پہنچا کر اس معاملہ میں پورا پورا انصاف کیا جائے گا۔

چار روز قبل اس معمہ کو حل کرنے کے بعد ملزم کو میڈیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے سی سی پی او غلام محمود ڈوگر نے بتایا تھا کہ ملزم علی رضا نے معصوم بچی کو اکیلا پا کر زیادتی کا نشانہ بنایا جس کے بعد اس کا گلا دبا کر اسے قتل کر دیا اور واقعے کو حادثے کا رنگ دینے کیلئے لاش سوئمنگ پول میں پھینک دی، پولیس نے اصل ملزم تک پہنچنے کے لیے 11 مشکوک افراد کے ڈی این اے اور پولی گراف ٹیسٹ کروائے تھے۔

پولیس کے مطابق گزشتہ ماہ بچی اپنے بھائی اور بہن کے ساتھ سوئمنگ پول میں آئی تھی، ملزم بچی کو بسکٹ اور کھانے پینے کی چیزوں کا لالچ دے کر کینٹین کے عقب میں لے گیا تھا، مقتولہ بچی کے دیگر بہن بھائی ملزم علی رضا سے کافی دیر تک بہن سے متعلق پوچھتے رہے، تاہم ملزم نے بچوں کو یہ کہا کہ ان کی بہن گھر واپس چلی گئی ہے۔

ماریہ کون تھی؟

دس سالہ مقتولہ ماریہ ضلع مہمند کے ایک ایسے غریب گھرانے کی بچی ہے جو محنت مزدوری کے سلسلے میں لاہور میں پچھلے 30 سال سے رہائش پذیر ہے۔

27 اگست 2022 کو شام چار بجے ماریہ اپنے بھائی سجاد اور 5 سالہ بہن عجرہ کے ساتھ سوئمنگ پول گئی اور پھر غائب ہو گئی،  جہاں ملزم نے معصوم بچی کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد اس کا گلا دبا کر اسے قتل کر دیا تھا اور اس گھناؤنے فعل کو حادثے کا رنگ دینے کے لیے مقتولہ کی لاش سوئمنگ پول میں پھینک دی تھی۔

ٹی این این سے بات کرتے ہوئے ماریہ کے چچا فضل نے بتایا کہ ماریہ کا والد مستری ہے اور پچھلے 30 سال سے لاہور میں رہائش پذیر ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماریہ کا 12 سالہ بھائی سوئمنگ پول جا رہا تھا تو دونوں بہنیں بھی اس کے پیچھےچلی گئیں، سجاد سوئمنگ پول میں نہا رہا تھا جب کہ بہنیں گیٹ میں کھڑی انتظار کر رہی تھیں، اس دوران ملزم نے ماریہ کو بسکٹ کے بہانے بلایا اور درندگی کی انتہا کر دی۔

ماریہ کے چچا نے مزید بتایا کہ جب بھائی سوئمنگ پول سے نکلا تو چھوٹی بہن سے ماریہ کے بارے میں پوچھا جس پر اس نے بتایا کہ ایک مرد نے اسے اشارہ کیا اور ساتھ لے گئی، جب بھائی نے ماریہ کو تلاش کرنے کی کوشش کی تو سوئمنگ پول کے مالک نے بتایا کہ وہ گھر جا چکی ہے، سجاد نے گھر آ کر جب دیکھا کہ ماریہ نہیں آئی تو سب پریشان ہو گئے۔

والدین کے مطابق دونوں بچوں کے گھر آنے کے بعد جب ماریہ کو تلاش کیا تو وہ کہیں نہیں ملی جب دوبارہ سوئمنگ پول پہنچے تو مالک نے بتایا کہ وہ ڈوب گئی ہے، جس پر اسے ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹروں نے اس کی موت کی تصدیق کر دی۔

ماریہ کے چچا نے الزام عائد کیا کہ سوئمنگ پول کے مالک سے پیسے لے کر پولیس اس کو ایک حادثہ قرار دینے کی کوشش کرتی رہی، ”چہرے اور گلے پر واضح نشانات کے باوجود پولیس والے اس کو ایک حادثہ قرار دیتے رہے، جب ہم لاش گھر لے کر گئے تو ہمیں بچی سے زیادتی کا اندازہ ہوا، جس کے بعد ہم نے لاش سڑک پر رکھ کر احتجاج شروع کیا کہ ایف آئی آر میں دفعہ 376 شامل کیا جائے تاکہ ملزمان کو کیفرکردار تک پہنچایا جا سکے تاہم پولیس ٹال مٹول کرتی رہی لیکن جب میڈیا پر خبر چلی اور وزیر اعلی نے نوٹس لیا تو پھر پولیس نے کارروائی شروع کر دی۔”

فضل نے ٹی این این کو بتایا کہ ماریہ کے والدین بہت پریشان ہیں، اس کا والد ذہنی توازن کھو بیٹھا ہے۔

انہوں نے ماریہ کے بارے میں بتایا، ”وہ ایک ایسی بچی تھی جس کی میں مثال نہیں دے سکتا، قسمت اسے سوئمنگ پول لے کر گئی، اس کے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ سجی رہتی تھی۔”

انہوں نے مطالبہ کیا کہ ہر صورت میں ملزمان کو پھانسی پر لٹکایا جائے تاکہ کسی اور ماریہ کو کوئی اس طرح مسل کر قتل نہ کرے، خواہ وہ پختونوں کی ماریہ ہو یا پنجاب کی ماریہ!

زیادتی کا شکار دس سالہ مقتولہ ماریہ اور اس کے والدین کو انصاف دلانے کے لیے مہمند لویہ جرگہ کافی سرگرم رہا، جس نے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہر کئے اور پولیس اور اعلی حکام سے ملوث ملزمان کو عبرتناک سزا دینے کا مطالبہ کیا۔

ٹی این این سے بات کرتے ہوئے مہمند لویہ جرگہ کے صدر سرفراز نے بتایا کہ بھرپور احتجاج اور عوامی دباؤ کے بعد پولیس نے سوئمنگ پول کے مالک اور مرکزی ملزم علی رضا کو گرفتار کر لیا ہے۔ سرفراز کے مطابق سوئمنگ پول کا مالک واقعہ میں ملوث واحد ملزم ہے جس کی مزید تحقیقات جاری ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پولیس نے اس سلسلے میں کئی افراد کو گرفتار کیا تھا لیکن ضروری پوچھ گچھ کے بعد ان کو رہا کیا گیا ہے، ”ماریہ کا والد صدمہ میں ہے جبکہ میں ماریہ کے چچا کے ساتھ مل کر اس کیس کی پیروی کر رہا ہوں، خیبر پختونخوا کے تمام پختون اس واقعہ کے حوالے سے فکرمند ہیں۔”

میڈیا کوریج کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ الیکٹرانک میڈیا کو جس طریقے سے کوریج دینی چاہیے تھی اس طریقے سے نہیں دی، وہ اس کو محض ایک حادثہ سمجھتے تھے لیکن جب ہم نے احتجاج کیا اور پولیس نے صحیح تحقیقات شروع کیں اور اصل حقائق سامنے آئے تو اس کے بعد میڈیا نے کوریج دینا شروع کر دیا، ”ملزم کا تعلق بااثر خاندان سے ہے جبکہ متاثرہ خاندان غریب ہے لیکن ہم انہیں انصاف دلانے کیلئے کھڑے ہیں۔”

لاہور: 7 ماہ، 170 بچوں سے جنسی زیادتی، ماڈل ٹاؤن ٹاپ پر

لاہور پولیس کی جانب سے جاری کی گئی ایک رپورٹ میں اس امر کا انکشاف کیا گیا ہے کہ رواں سال کے پہلے سات ماہ میں شہر کے 170 بچوں سے جنسی زیادتی کی گئی، لاہور پولیس کے 6 زونوں میں بچوں سے جنسی زیادتی کے سب سے زیادہ واقعات ماڈل ٹاؤن میں رونما ہوئے جن کی تعداد 65 ہے۔

پولیس رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے صدر ڈویژن دوسرے نمبر پر رہا جس میں بچوں سے جنسی زیادتی کے 30 واقعات رونما ہوئے۔ پولیس رپورٹ کے مطابق لاہور پولیس 170 بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات میں ملوث صرف 100 ملزمان کو گرفتار کر سکی تاہم ان ملزمان کو سخت سزائیں نہ دی جا سکیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button