جرائم

پشاور: تین ہفتوں کے دوران تین بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی، دو قتل

خالدہ نیاز

پشاور میں تین ہفتوں کے دوران تین بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی اور دو کو زیادتی کے بعد قتل بھی کر دیا گیا ہے۔

پیر کی شب پشاور صدر میں ایک بچی کو قتل کیا گیا، بجلی گھر مسجد سے 7 سالہ بچی کی لاش برآمد ہوئی۔ بچی کے دادا کے مطابق بچی دوپہر کو روٹی لائی اور ان سے 10 روپے لے کر چلی گئی لیکن گھر واپس نہ آئی اور شام کو مسجد کی حدود سے اس کی لاش برآمد ہوئی۔ ابتدائی معلومات کے مطابق بچی کو ممکنہ طور پر ذبحہ کر کے قتل کیا گیا ہے۔

بچی کے دادا نے میڈیا کو بتایا کہ جب شام تک اس کا پتہ نہ چلا تو انہوں نے غربی تھانے میں رپورٹ درج کرا دی جس کے بعد پولیس کو مسجد سے اس کی لاش ملی۔ انہوں نے کہا کہ ان کی کسی کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں ہے جبکہ پولیس کی کارکردگی سے مطمئن ہیں۔

یہ گزشتہ تین ہفتوں میں تیسری بچی ہے جن کے ساتھ زیادتی ہوئی اور ان میں سے دو کو قتل بھی کیا جا چکا ہے۔

ماہ نور جنسی زیادتی کے بعد قتل

اس سے پہلے جولائی کے پہلے ہفتے میں پشاور کے ریلوے سٹیشن میں ماہ نور نامی کمسن بچی کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا تھا۔ ماہ نور کے والدین کی جانب سے پولیس کو درج کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بچی کے ساتھ زیادتی کی گئی اور بعد ازاں اس کو قتل کر دیا گیا۔ واقعے کے بعد لواحقین اور اہل علاقہ نے احتجاج بھی کیا۔

ماہ نور کے والد کے مطابق وہ دکان سے کوئی چیز خریدنے گئی اور پھر واپس نہیں آئی اور کئی گھنٹے ڈھونڈنے کے بعد ان کو ماہ نور کی لاش مل گئی، اس کے سر پر چوٹ کا نشان تھا اور دوپٹے سے اس کو پھانسی دی گئی تھی۔ والد نے پولیس کو بتایا کہ ان کی کسی کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں۔

سسٹین ایبل سوشل ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن اور سینٹر فار ریسرچ، ڈیولپمنٹ اینڈ کمیونیکیشن کی جانب سے مرتب کی گئی رپورٹ کے مطابق جون 2022 میں ملک بھر میں تقریباً 180 بچے جنسی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنے جن میں بچوں سے زیادتی کے 93 واقعات، اغوا کے 64 واقعات اور جسمانی تشدد کے 37 واقعات شامل ہیں۔

پنجاب میں زیادتی کے 36 واقعات ہوئے، اس کے بعد خیبر پختونخوا میں 28 اور سندھ میں 18 واقعات ہوئے، سب سے کم تعداد اسلام آباد میں 6 اور بلوچستان میں 5 واقعات رپورٹ ہوئے۔

گلبرگ میں پانچ سالہ بچی کے ساتھ جنسی زیادتی

ماہ نور کے بعد دس جولائی کو گلبرگ میں پانچ سال کی ایک بچی کے ساتھ نامعلوم افراد نے جنسی زیادتی کی تھی۔ گلبرگ سے تعلق رکھنے والے حنیف اللہ خان نے پولیس کے پاس رپورٹ درج کراتے ہوئے بتایا کہ ان کی بچی نیم بے ہوشی کی حالت میں پڑی تھی، انہوں نے اس کو ہسپتال پہنچایا جہاں ڈاکٹروں نے ان کو بتایا کہ بچی کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئی ہے جس کے بعد انہوں نے نامعلوم افراد کے خلاف رپورٹ درج کرا دی۔

بچوں کے ساتھ زیادتی پر کام کرنے والی این جی او ساحل کی رپورٹ کے مطابق پاکستان بھر میں 2021 میں کم از کم 3,852 بچوں، 2,068 لڑکیوں اور 1,784 لڑکوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی۔

اسی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال کے دوران روزانہ کم از کم 10 بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ اغوا کے 1,060 کیسز رپورٹ ہوئے، عصمت دری کے 410 مقدمات درج ہوئے، جنسی زیادتی کے 483 کیسز، گینگ ریپ کے 146 کیسز اور گینگ سوڈومی کے 234 کیسز رپورٹ ہوئے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ کم از کم 22 لڑکوں اور 18 لڑکیوں کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا جبکہ کم از کم 10 لڑکوں اور تین لڑکیوں کو اجتماعی بدکاری اور عصمت دری کے بعد قتل کیا گیا۔

بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے سماجی کارکن عمران ٹکر نے پشاور میں بچیوں کے ساتھ ہونے واقعات میں زیادتی کے حوالے سے بتایا کہ اس کی ایک وجہ تو والدین کی جانب سے عدم توجہی ہے کہ وہ ایسے گرمی کے موسم میں بھی بچیوں کو اکیلا چھوڑ دیتے ہیں۔ رات والے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قتل ہونے والی بچی کو گرمی کے موسم میں دوپہر دو بجے کے وقت اکیلا چھوڑ دیا گیا تھا اور وہ اکیلی دکان بھی گئی تو یہاں والدین کی بھی ذمہ داری بنتی ہے۔

جنسی واقعات میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟

عمران ٹکر نے کہا کہ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ جب اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں تو اخبارات میں بھی خبریں آتی ہیں، تبصرے بھی ہوتے ہیں، ٹاک شوز میں بھی بات ہوتی ہے لیکن جب کچھ دن گزرتے ہیں تو کوئی بھی اس حوالے سے بات نہیں کرتا اور یوں ملزمان بچ جاتے ہیں اور یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔

انہوں نے بتایا کہ بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات عرصہ دراز سے ہوتے چلے آ رہے ہیں لیکن اب اس کے خاتمے کے لیے سب کو مل کر کام کرنا ہو گا، عوام کو ایم این ایز، ایم پی ایز، لوکل باڈیز نمائندوں اور میڈیا کے ساتھ اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے کیونکہ اس کا خاتمہ وقت کی ضرورت ہے۔

عمران ٹکر کے مطابق اس حوالے سے باقی اقدامات کرنے کی بھی ضرورت ہے، نصاب میں بھی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے اور سکول اور مدارس کے اساتذہ کو بھی اس سلسلے میں کردار ادا کرنا چاہیے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ بچوں کے والدین، بچوں اور خاص طور پر ان لوگوں پر بھی توجہ دینی چاہئے جو محروم لوگ ہیں اور ذہنی مسائل سے دوچار ہیں کیونکہ ایسے لوگ بچوں کو اسان ہدف سمجھ کرنشانہ بنا لیتے ہیں۔

چائلڈ پروٹیکشن کمیٹیاں صحیح کام نہیں کر رہیں

عمران ٹکر کے مطابق قانون موجود ہے، چائلڈ پروٹیکشن کمیشن بنا ہے اور ہر ضلع میں چائلڈ پروٹیکشن کورٹس اور کمیٹیاں بھی بنی ہیں لیکن بدقسمتی سے وہ صحیح طور پر فعال نہیں ہیں، دوسری اہم بات یہ ہے کہ ملزمان پکڑے جاتے ہیں لیکن وہ بچ جاتے ہیں، ان کو سزا نہیں ملتی حالانکہ کاغذ میں قانون سخت ہے کیونکہ اگر کسی شخص پر ثابت ہو جائے زیادتی اور قتل تو اس کو سزائے موت دی جاتی ہے لیکن زیادہ تر لوگ بچ جاتے ہیں۔

عمران ٹکر نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں میڈیکل لیبارٹریز کی بھی کمی ہے، ایک ہی لیبارٹری موجود ہے اور اس پہ بہت لوڈ ہے اور وہ بھی جدید آلات سے عاری ہے اس جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر کوئی واقعہ ہوتا ہے تو پھر ٹیسٹ لاہور اور اسلام آباد جاتے ہیں اور کافی سارا وقت ضائع ہو جاتا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button