جرائم

جوڈیشل کمپلیکس لکی مروت میں ماں کے سامنے جوان بیٹا قتل

غلام اکبرمروت

جوڈیشل کمپلیکس لکی مروت میں ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت کے سامنے فائرنگ کر کے پیشی پر آئے ہوئے شخص کو قتل کر دیا گیا۔ فائرنگ سے ایک بے گناہ شخص زخمی ہوا جبکہ وقوعہ کے بعد ملزم نے اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کر دیا۔

تھانہ غزنی خیل پولیس کو پچاس سالہ بیوہ خاتون شمیم بی بی نے بتایا کہ ان کی قتل مقاتلے کی دشمنی ہے اور امروز وہ اپنے بیٹے کے ہمراہ جوڈیشل کمپلیکس لکی مروت میں ایڈیشنل سیشن جج 2 کی عدالت کے سامنے پیشی کے انتظار میں بیٹھی تھی کہ اس دوران ان کے مخالفین کلیم اللہ اور محمد شاہد آئے، ملزم محمد شاہد نے اپنی پستول سے فائرنگ کر کے میرے 25 سالہ نوجوان بیٹے فرحت اللہ پر فائرنگ کر دی جس سے وہ موقع پر جاں بحق ہوا۔ پولیس نے فوری طور پر ملزمان کو گرفتار کر لیا۔

مقتول فرحت اللہ (فائل فوٹو)

پولیس تھانہ غزنی خیل کی رپورٹ کے مطابق وقوعہ میں ایک بے گناہ شخص محمد اقبال ولد رحم دل سکنہ پاخیل بیٹنی بھی زخمی ہوا ہے جسے علاج معالجے کیلئے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال تاجہ زئی لکی مروت منتقل کر دیا گیا۔

ریسکیو 1122 کا ہیڈکوارٹر ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ہونے کے باجود جاں بحق شخص کی لاش ایک گھنٹے سے زائد وقت تک فرش پر پڑی رہی لیکن لاش اٹھانے کیلئے ریسکیو ایمبولینس نہیں آئی۔

ایسے واقعات پر ڈسٹرکٹ بار لکی مروت کا کیا موقف ہے؟

فائرنگ کے واقعہ کے بعد ڈسٹرکٹ بار لکی مروت نے فوری طور پر ہڑتال کا اعلان کیا اور عدالتوں میں پیش ہونا بند کر دیا۔ اس سلسلے میں ڈسٹرکٹ بار لکی مرو ت کے جنرل سیکریٹری کفایت اللہ ایڈوکیٹ نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ آج وقوعہ کے بعد فوری ہڑتال کا اعلان کیا گیا تھا، ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے ضروری ہے کہ جوڈیشل کمپلیکس میں پرائیویٹ گاڑیوں کا داخلہ مکمل طور پر بند کیا جائے اور سخت چیکنگ کی جائے تاکہ اسلحہ اندر لانے کا امکان ختم ہو جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس سے پہلے بھی اسی طرح کا واقعہ رمضان شریف میں رونما ہوا تھا جس میں سیکورٹی انچارج بمع عملہ کو معطل کر کے محکمانہ انکوائری عمل میں لائی گئی تھی۔

لکی مروت میں گزشتہ روز نئے ڈی پی او ضیاالدین احمد تعینات ہوئے ہیں۔ انہوں نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا اور تفصیلی جائزہ لیا۔ پولیس نے وہاں سے ملنے والے اہم شواہد کا معائنہ کیا اور واقعہ کی مزید تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ لیکن ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ مزید کیا تحقیقات ہوں گی کیونکہ ابھی تک سیکیورٹی پر مامور پولیس اہلکاروں میں سے کسی کو بھی غفلت برتنے پر معطل نہیں کیا گیا ہے۔

کیا جوڈیشل کمپلیکس لکی مروت میں یہ پہلا واقعہ ہے؟

یہ پہلا نہیں بلکہ جوڈیشل کمپلیکس لکی مروت میں ایسے ان گنت واقعات پیش آئے ہیں۔ البتہ اگر دیکھا جائے تو دو مہینے پہلے بھی اسی جوڈیشل کمپلیکس کے اندر فائرنگ کر کے افسر خان نامی شخص کو قتل کر دیا گیا تھا۔ ملز م کو پولیس نے آلہ قتل سمیت گرفتار کر لیا تھا۔

اس سے قبل ایک خاتون نے عدالت سے سیکورٹی مانگی، انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ انہیں قتل کیا جا رہا ہے سیکورٹی فراہم کی جائے لیکن جوڈیشل کمپلیکس سے متصل پولیس لائن اور ڈی پی او آفس ہونے کے باوجود پولیس نہیں آئی اور بالآخر کئی گھنٹے گزرنے کے بعد انہیں عدالت کے کمرے کے سامنے فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا۔

کیا جوڈیشل کمپلیکس لکی مروت میں پیشی محفوظ ہے؟

اکثر و بیشترجوڈیشل کمپلیکس پیشی آنے والوں کو جاتے ہوئے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ابھی مارچ 2022 میں ملزمان نے مسافر کوچ کو پشاور کراچی انڈس ہائی وے پر تاجہ زئی کے قریب روک کر مخالف نوجوان کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا، پولیس نے بتایا کہ ملزم عدنان واردات کے بعد فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا، مقتول فرقان خان (18 سال) اور ملزم کے مابین قتل مقاتلے کی عداوت تھی۔

مدعی فلک ناز نے رپورٹ درج کراتے ہوئے غزنی خیل پولیس کو بتایا کہ وہ اپنے بھتیجے فرقان کے ہمراہ عدالت میں پیشی کے بعد مسافر کوچ میں گاؤں غلام علی سمٹی جا رہے تھے کہ راستے میں تاجہ زئی نہر کے قریب پہلے سے موجود ملزم عدنان نے کوچ کھڑی کرو اکر اس میں سوار ان کے بھتیجے پر کلاشنکوف سے فائرنگ کر دی جس سے وہ موقع پر جاں بحق ہو گیا، مدعی کے مطابق ملزم کو مسلح حالت میں دیکھتے ہی ڈرائیور اور دیگر سواریاں کوچ سے اتر کر بھاگ کھڑی ہوئیں۔

اکثر و بیشتر اپنے مقدمات کے سلسلے میں جوڈیشل کمپلیکس آنے والے شہزاد خان نے بتایا کہ جوڈیشل کمپلیکس جتنا اندر سے خطرناک ہے اس سے زیادہ باہر خطرناک ہے کیونکہ باہر دو تین نجی پارکنگ ہیں جہاں اکثر لوگ اپنا اسلحہ رکھتے ہیں۔ واپسی پر سب سے خطرناک جگہ یہ پارکنگ ایریاز ہیں کیونکہ کئی بار میرے سامنے مخالفین نے ایک دوسرے پر اسلحہ تانا ہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ یہاں کوئک رسپانس فورس طرز کی گاڑیاں دو کلومیٹر کے فاصلے تک گشت میں ہونی چاہئیں تاکہ کسی کو لڑائی جھگڑے کا موقع نہ ملے۔

کیا صوبہ بھر کی عدالتوں میں قتل ہوتے ہیں؟

پشاور کے ایک رہائشی کو مقامی عدالت میں جج کے سامنے اس وقت قتل کیا گیا جب عدالت میں توہین مذہب کیس کی سماعت ہو رہی تھی۔سٹی کیپیٹل پولیس آفیسر محمد علی گنڈاپور نے عدالت کے احاطے میں میڈیا سے گفتگو میں بتایا تھا کہ ایک شخص کو سیشن جج شوکت علی کے سامنے قتل کر دیا گیا ہے جبکہ قتل کرنے والے ملزم محمد خالد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

قتل ہونے والے شخص کا نام طاہر احمد بتایا گیا تھا اور پشاور کے اچینی بالا علاقے سے اس کا تعلق تھا۔ عدالتی ریکارڈ کے مطابق قتل ہونے والے شخص پر توہین مذہب کا کیس گزشتہ دو سالوں سے چل رہا تھا۔

اسی سال جنوری کے مہینے میں جوڈیشل کمپلیکس چارسدہ میں بھی فائرنک ہوئی تھی۔

پچھلے سال دسمبر میں پشاور میں جوڈیشل کمپلیکس چارسدہ میں فائرنگ کا واقعہ پیش آیا جس میں خاتون جاں بحق ہو گئی۔ خاتون پیشی کیلئے عدالت آئی تھی۔ نجی ٹی وی جیو نیوز کے مطابق مقتولہ کو اس کے والد اور بھائی نے فائرنگ کر کے قتل کیا، ملزمان کو ڈیوٹی پر موجود اہلکاروں نے گرفتار کر لیا اور اسلحہ قبضے میں لے لیا۔

پشاور کے تھانہ شرقی کی حدود میں جو ڈیشل کمپلیکس میں سابقہ دشمنی کی بنا پر سپیشل پولیس اہلکار (ایس پی او) نے فائرنگ کر کے ایک شخص کو قتل جبکہ ایک کو شدید زخمی کر دیا جنہیں تشویش ناک حالت میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال پہنچا دیا گیا۔ پولیس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے ملزم کو آلہ قتل سمیت گرفتار کر کے مقدمہ درج کر لیا۔

خیبرپختونخوا کے ضلع سوات میں پیشی کے لیے آنے والی خاتون پر ان کے شوہر نے ضلعی عدالت کے اندر خنجر کے وار کر کے شدید زخمی کر دیا۔ خاتون کو تشویشناک حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button