خیبر پختونخوا: 6 سے زائد مقامات پر آگ، اک ہی خاندان کے 4 افراد جاں بحق
خيبر پختونخوا کے جنگلات میں 6 مختلف مقامات پر آگ لگنے سے ایک ہی خاندان کے چار افراد جاں بحق ہو گئے۔
ریسکیو ذرائع 1122 کے مطابق شانگلہ کے چکیسر علی جان سر کے پہاڑوں کے جنگلات میں آگ لگنے سے پہاڑوں پر قائم گھر بھی لپیٹ میں آ گئے جس کے نتیجے میں ایک ہی گھر کے 4 افراد جان کی بازی ہار گئے، جاں بحق ہونے والوں میں ایک بچی، دو بچے اور ایک خاتون شامل ہے، زرائع کے مطابق چاروں لکڑیاں جمع کر رہے تھے۔
پولیس ذرائع کے مطابق امدادی کاروائیاں جاری ہیں، نزدیک ایریا میں پانی نہ ہونے کے باعث آگ بجھانے میں مشکلات کا سامنا ہے، پولیس اور ریسکیو اہلکار اپنی مدد آپ کے تحت آگ بجھانے میں مصروف ہیں، آگ کے بڑھنے کا خدشہ ہے جس نے قریبی مکانات اور گھروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
ریسکیو اہلکاروں نے پیشہ ورانہ طریقے سے آگ بجھانے کیلئے فوری کاروائی شروع کر دی ہے، اطلاعات کے مطابق جنگل آتشزدگی میں کچھ افراد زخمی بھی ہوئے ہیں جن کو فوری طور پر تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال چکیسر منتقل کر دیا گیا ہے، تاحال ریسکیو آپریشن جاری ہے۔
خیال رہے کہ صوبے کے 6 سے زائد مقامات میں؛ شانگلہ، بونیر اور سوات کے مینگورہ، رحیم آباد، کوزہ بانڈی سیگرام اور بریکوٹ ابوہا میں آگ بھڑک اٹھی ہے، ملاگوری کے زاورہ مینہ ڈبر نامی پہاڑ پر بھی آگ لگ گئی ہے۔ضلعی انتظامیہ اور پاک فوج کے اہلکار آگ بجھانے میں مصروف ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ خشک موسم کی وجہ سے آگ تیزی سے پھیل رہی ہے، آگ بجھانے میں مسائل کا سامنا ہے جبکہ سہولتوں کی کمی بھی آگ بجھانے کے عمل کو متاثر کر رہی ہے۔ انتظامیہ کے مطابق قریبی علاقوں کے لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے احکامات جاری کر دیئے گئے ہیں۔
بونیر انتظامیہ اک ہفتہ سے لگی آگ بجھانے میں ناکام
گزشتہ ایک ہفتے ضلع بونیر مختلف مقامات پر پانچ سو سے زائد ایکڑ جنگلات میں آگ لگی ہے جس کی وجہ سے ان علاقوں میں بلین ٹری منصوبے کے تحت لگائے گئے درختوں سمیت پہلے سے موجود جنگل جل کر راکھ ہو گیا۔
ذرائع کے مطابق ضلع بونیر میں گزشتہ دو سالوں سے مسلسل ان مقامات پر آگ لگائی جاتی ہے جہاں پر حکومت نے بلین ٹری منصوبے کے تحت پودے لگائے ہیں، گزشتہ 8 دنوں سے ضلع بھر کے مختلف مقامات جن میں گوکند درہ، ایلم (پہاڑ)، گاگرہ، چغرزئی غازی بانڈہ، کلابٹ، چڑ اور ڈپٹی کمشنر آفس کے ساتھ متصل پراجیکٹ میں آگ لگنے کے واقعات رونما ہوئے۔
ذرائع کے مطابق ضلع بونیر انتظامیہ گزشتہ کئی دنوں سے مختلف مقامات پر آگ پر قابو پانے کیلئے کوشیش تیز کرنے کے بجائے حکمران جماعت کے بونیر جلسے کی تیاریوں میں مصروف تھی جس کی وجہ سے ضلع بھر میں جنگل کو نقصان پہنچا۔
ضلعی انتظامیہ اور محکمہ فاریسٹ کی عدم دلچسپی کے بعد مقامی مساجد اور بازاروں میں اعلانات کے بعد مقامی لوگ آگ کو بجھانے کیلئے پہنچ گئے جس پر تاحال قابو نہ پایا جا سکا
محکمہ جنگلات بونیر کی جانب سے فراہم کردہ رپورٹ میں تمام مقامات پر آگ پر قابو پانے کی کلیئر رپورٹ پیش کی گئی ہے جبکہ بیشتر مقامات پر ابھی تک آگ پر قابو نہیں پایا گیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ضلع بونیر میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران جنگلات پر لگی آگ سے 460 ایکڑ جنگل کو نقصان پہنچا ہے تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
ڈی ایف او بونیر ارشد خان نے کے مطابق ضلع بونیر کے مختلف علاقوں میں لگی آگ میں کچھ سرکاری جنگل ہے اور کچھ پرائیویٹ، ابھی تک بیشتر علاقوں میں لگی آگ پر قابو پا لیا گیا ہے، حالیہ واقعات میں محکمہ نے باقاعدہ ایف آئی آر میں نامزد افراد کو گرفتار کیا ہے، محکمہ نے ایف آئی آر کے ساتھ ساتھ پان ڈیمیج رپورٹ بھی درج کی ہے۔
دیر لوئر میں کچی سڑک آگ بھجانے میں بڑی رکاوٹ
دیر لوئر کے علاقہ لڑم کوٹیگرام اوچھ کے پہاڑوں پر بھی نامعلوم وجوہات کی وجہ سے آگ بھڑک اٹھی ہے، ریسکیو 1122 دیر لوئر کے مطابق سڑک نہ ہونے اور دشوار راستے کی وجہ سے ریسکیو فائر وہیكل کا پہنچنا ناممکن ہے، ریسکیو جوان 4 گھنٹے راستہ پیدل طے کرنے کے بعد اوپر چڑھ کر جائے وقوعہ پر پہنچے اپنی پیشہ ورانہ مہارت کی بدولت سٹارویشن کے عمل کی صورت میں امدادی سرگرمیاں شروع کر دیں۔
حکومت سوئی ہوئی ہے۔ اے این پی
ادھر عوامی نیشنل پارٹی خیبر پختونخوا کے صدر ایمل ولی خان نے جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات میں مسلسل اضافے پر اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا ہے کہ شیرانی کوہ سلیمان کے سلسلے کے بعد پختونخوا کے مختلف پہاڑی سلسلوں میں آگ لگنے کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، شانگلہ علی جان کپرئی اور بہلول خیل میں گذشتہ تین روز سے آگ لگی ہوئی ہے جس میں چار افراد ابھی تک جاں بحق ہو چکے ہیں لیکن حکومتی مشینری ناکام نظر آ رہی ہے، بلوچستان، شیرانی، بونیر، دیر، شانگلہ، سوات اور تورغر کے قیمتی پہاڑ جل رہے ہیں جبکہ حکومت سوئی ہوئی ہے۔
اس حوالے سے اپنے اک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ شیرانی کے جنگل جل گئے، ایلم کا پہاڑی سلسلہ راکھ بن گیا لیکن کسی کو کوئی فکر نہیں، ان پہاڑوں میں اربوں روپے کے قیمتی درخت جل کر راکھ ہو گئے، لوگ اپنی مدد آپ کے تحت آگ بجھا رہے ہیں، بدقسمتی سے صوبائی حکومت تخت اسلام آباد کی لڑائی میں مصروف ہے اور پشتونوں کے قدرتی وسائل تباہ ہو رہے ہیں، اے این پی مطالبہ کرتی ہے کہ ان واقعات کی شفاف تحقیقات کرائی جائیں اور ملوث افراد کو سامنے لایا جائے۔
خیال رہے کہ اس سے قبل بلوچستان کے ضلع شیرانی میں چلغوزے کے سب سے بڑے جنگلات میں آگ لگ گئی تھی جس کے نتیجے میں آگ بجھانے کی کوششوں کے دوران تین مقامی افراد جھلس کر جاں بحق جبکہ تین زخمی ہوئے تھے۔
آگ بجھانے کے مشن میں منگل کو ایران کے آگ بجھانے والے خصوصی طیارے نے بھی پہلی بار حصہ لیا تھا اور کئی دن کی محنت کے بعد آگ پر قابو پا لیا گیا تھا۔