جرائم

بچوں سے زیادتی کی سزا: عمر قید، سزائے موت اور 50 لاکھ روپے جرمانہ

طیب محمدزئی

خیبر پختونخوا میں بچوں کے تحفظ کا قانون چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ 2010 کی سزاؤں اور جرمانوں کو مزید سخت کر دیا گیا۔ چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ 2010 کا ترمیمی بل صوبائی وزیر قانون فضل شکور خان نے اسمبلی میں پیش کر دیا جو متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔

نئی ترامیم کے بعد اب بچوں سے زیادتی کی سزا عمر قید، سزائے موت اور 50 لاکھ روپے تک جرمانہ ہو گا۔ زیادتی کے وقت ویڈیو بنانے والے ملزم پر 20 سال قید اور 70 لاکھ روپے جرمانہ عائد ہو گا جبکہ زیادتی کی ویڈیو شیئر کرنے والے کو بھی 10 سال قید، 20 لاکھ روپے جرمانہ کیا جائے گا۔ جدید آلات کی شہادت مثلاً ڈی این اے رپورٹ اور ویڈیو کو عدالت میں بطور ثبوت تسلیم کیا جائے گا، بچوں کے ساتھ ہر قسم کے جرائم ناقابل معافی ہوں گے، بچوں سے زیادتی کے ملزم پر جرم ثابت ہونے کے بعد اُسے سماجی طور پر الگ تھلگ رکھنے کے لیے سزایافتہ مجرم کے عوامی مقامات، ٹرانسپورٹ، پارکس میں داخلے پر پابندی ہو گی جبکہ پولیس زیادتی کے مرتکب افراد کے نام رجسٹرڈ کر کے ویب سائٹ پر مشتہر کرےگی۔

خیبر پختونخوا میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے سماجی کارکن عمران ٹکر نے چائلڈ پروٹیکشن بل 2010 میں ترامیم کا خیرمقدم کیا اور اسے عوامی امنگوں کے مطابق قرار دیتے ہوئے کہا کہ سخت سے سخت قوانین سے جرائم کی روک تھام ممکن ہو سکتی ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان اور پھر خیبر پختونخوا میں قوانین تو متعارف کروائے یا پاس کروائے جاتے ہیں لیکن ان قوانین کے نفاذ کے لیے وسائل نہیں ہوتے جس کی وجہ سے قوانین نافذ کرنے میں وقت لگتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ قوانین کے نفاذ میں پولیس، عدلیہ، تفتیشی نظام، میڈیکل رپورٹس کا نظام، وکلاء، پراسیکیوشن وغیرہ وغیرہ جیسے سٹیک ہولڈرز شامل ہیں ان کو مضبوط کرنا ہو گا تاکہ مظلوموں کو انصاف مل سکے۔

وسائل کے حوالے سے سماجی کارکن نے کہا کہ تمام سٹیک ہولڈرز کی قوانین سے متعلق استعدادکار بڑھانے کے لیے تربیتی ورکشاپ کروانے چاہئیں تاکہ مقدمات کے دوران اور اس مسئلے کو صحیح ہینڈل کرنے میں آسانی ہو، عوام میں ان قوانین کے حوالے سے شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے لیکن وسائل کی کمی کی وجہ سے قوانین پر عمل درآمد نہیں ہو سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ وسائل کی کمی کی وجہ سے خیبر پختونخوا کے 35 اضلاع میں صرف 8 اضلاع میں چائلڈ کورٹس بنائی گئی ہیں اس طرح چائلڈ پروٹیکشن یونٹس صرف 12 اضلاع میں بنائے گئے ہیں لہذا حکومت سخت قوانین متعارف کروانے اور نافذ کرنے لیے اداروں کے مابین کوآرڈینیشن، تربیت، وسائل اور آگاہی کے لیے فوری طور پر اقدامات کرے تاکہ وقت پر قانون سے مظلوم اور متاثرہ لوگوں کو فائدہ پہنچے۔

خیبر پختونخوا پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق خیبر پختونخوا میں سال 2019 کے دوران بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 185 کیسز سامنے آئے تھے، 2021 میں یہ تعداد مزید بڑھ گئی اور خیبر پختونخوا پولیس کے ساتھ 323 کیس رجسٹرڈ ہوئے تاہم رواں سال یہ اعداد و شمار ابھی تک سامنے نہیں آئے، دوسری جانب غیرسرکاری فلاحی تنظیم کی رپورٹس کے مطابق بچوں کے ساتھ زیادتی میں ملوث اکثر جان پہچان والے، محلے دار اور آشنا لوگ ہوتے ہیں۔

بچوں کے تحفظ کے قوانین بارے وسیع تجربہ رکھنے والے وکیل فرہاد اللہ آفریدی ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ میں نئی ترامیم ایک اچھا اقدام ہے لیکن ان کے نفاذ کا طریقہ کار وضع کرنا ہو گا کیونکہ قوانین تو بن جاتے ہیں لیکن ان کا نفاذ بہت مشکل ہوتا ہے۔

انہوں نے نئی ترمیم میں ویڈیوز بطور ثبوت پیش کرنے کے حوالے سے کہا کہ قانون شہادت 1984 میں یہ موجود ہے کہ جدید آلات کی شہادت قابل قبول ہے، مطلب یہ پہلے سے قانون میں موجود ہے، ”اچھی بات ہے کہ سپیشل قانون میں بھی اس کو شامل کیا گیا۔”

مجرمان یا سزائے یافتہ لوگوں کے سوشل بائیکاٹ کے حوالے سے اُن کا کہنا تھا کہ یہ بہت مشکل ہے، جنسی زیادتی کے مقدمات میں سزایافتہ لوگوں کو معاشرے سے الگ تھلگ رکھا جائے اس کے لیے ایک الگ فورس کی ضرورت ہو گی۔

انہوں کہا کہ بچوں پر جنسی تشدد کے مقدمات میں تفتیشی افسران کو اس بارے مکمل تربیت دینا ہو گی تاکہ ایسے مقدمات میں موثر تفتیش ہو اور عدالت میں متاثرہ بچوں کو انصاف مل سکے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button