جرائم

صحافی خادم رہا، ملزم خادم کے سر کی قیمت کتنی رکھی گئی ہے؟

محمد طیب محمدزئی

انسداد دہشت گردی پشاور کی خصوصی عدالت نے پولیس پر فائرنگ کے مقدمے میں نامزد صحافی خادم آفریدی کے خلاف ٹھوس شواہد نہ ہونے کی بنا پر ضمانت درخواست منظور کرتے ہوئے اُنہیں ضمانت پر رہا کرنے کے احکامات جاری کئے۔

خیال رہے کہ کاؤنٹر ٹریرزم یپارمنٹ (سی ٹی ڈی) تھانہ پشاور کے اہلکاروں نے خادم آفریدی کو تھانہ سربند کی حدود سے 13 مئی کو گرفتار کیا تھا اور سوشل میڈیا پر اپنی ایک جاری پریس ریلیز میں لکھا تھا کہ ملزم خادم آفریدی نے 2013 میں تھانہ گلبہار کے دو پولیس رائیڈرز کو نشانہ بنایا تھا جس کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار کرامت اللہ جاں بحق جبکہ دوسرا ساتھی زخمی ہوا تھا جس کے بعد پولیس نے ملزم کے روپوش ہونے پر 512 کی کارروائی کرتے ہوئے اُنہیں اشتہاری قرار دے دیا تھا اور صوبائی حکومت نے اطلاع دینے اور گرفتاری پر ملزم کے سر کی قیمت دس لاکھ روپے رکھی تھی۔

سی ٹی ڈی پولیس کے ہاتھوں خادم آفریدی کی گرفتاری کے فوراً بعد باڑہ پریس کلب کی صحافی برداری سمیت پورے صوبے میں صحافیوں نے سوشل میڈیا پر خادم آفریدی کی رہائی کے لیے مہم شروع کر دی جو آہستہ آہستہ احتجاج کی شکل اختیار کر گئی اور ضلع خیبر سمیت ضم اضلاع اور پشاور مظاہرے ہوئے۔

خیبر یونین آف جرنلسٹ پشاور نے بھی احتجاج کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ صحافی خادم آفریدی کو رہا کرے۔ پشاور پریس کلب کے سینئر صحافیوں ایم ریاض، شمیم شاہد، سیف اسلام سیفی، ناصر حسین، شہزادہ فہد اور دیگر صحافیوں نے ضلع خیبر کی تحصیل باڑہ کے صحافیوں کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھا اور اعلی پولیس حکام کے ساتھ مذاکرات میں بھی شامل ہوئے تاہم اس دوران سی ٹی ڈی پولیس نے خادم آفریدی کو دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا اور تفتیش کے لیے ایک دن کا وقت حاصل کر لیا جس کے بعد دوبارہ جب ملزم کو عدالت میں پیش کیا گیا تو عدالت نے ملزم کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔

اس کے بعد باقاعدہ طور پر ملزم کے وکیل فرہاد اللہ آفریدی نے ضمانت کے لیے انسداد دہشت گردی پشاور کی خصوصی عدالت میں درخواست دی جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ خادم آفریدی کو ایک ہم نام ملزم کی پاداش میں گرفتار کیا گیا ہے کیونکہ تھانہ گلبہار پولیس کی ایف آئی آر میں جو خادم کے نام سے ملزم نامزد ہے وہ یہ خادم نہیں بلکہ اُس خادم بارے ابھی تک کوئی معلومات دستیاب نہیں ہیں۔

دوران سماعت عدالت کو بتایا گیا کہ درخواست گزار خادم آفریدی ایک معزز پیشے سے تعلق رکھتا ہے اور وہ 2010 سے صحافت کے میدان میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں جبکہ وہ باڑہ پریس کلب کے صدر سمیت کئی اعلی عہدوں پر رہ چکے ہیں۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ درخواست گزار کا اس کیس سے دور دور تک کا کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی براہ راست مقدمے میں نامزد ہے۔ استعاثہ کے پاس ملزم کے خلاف کوئی ٹھوس شواہد موجود نہیں، پولیس کی تفتیش کے ریکارڈ سے بھی معلوم ہو رہا ہے کہ جس خادم نامی شخص کو 161 بیان کے تحت مقدمے میں نامزد کیا گیا ہے وہ یہ خادم نہیں بلکہ اس خادم کا ابھی تک کوئی سراغ نہیں مل سکا لہذا درخواست گزار کو ضمانت دی جائے۔

عدالت نے درخواست گزار کی ضمانت درخواست منظور کرتے انہیں رہا کرنے کے احکامات جاری کر دیے جنہیں منگل کے روز جیل سے رہا کر دیا جائے گا۔

دوسری جانب صحافی برادری نے خادم آفریدی کی رہائی پر خوشی کا اظہار کیا ہے اور ان کی رہائی کو حق کی جیت قرار دیا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button