خیبر پختونخوا: دیگر علاقوں کی طرح سب ڈویژن پشاور بھی منشیات کی لپیٹ میں!
شمائلہ آفریدی
”میرے دوست کہا کرتے تھے کہ چرس کا نشہ کرنے سے انسان تروتازہ ہو جاتا ہے، سکون و آرام محسوس ہوتا ہے۔ میں نے خود کبھی کوئی منشیات استعمال تو نہیں کی تھی لیکن دوستوں کی باتوں میں آ کر اٹھارہ سال کی عمر میں چرس پینا شروع کی اور پھر آہستہ آہستہ اس کا عادی بن گیا۔ سوچ رہا ہوں کہ کیا فضول کام کیا ہے جس میں تباہی کے سوا کچھ نہیں تھا۔”
یہ الفاظ یاسر آفریدی کے ہیں، جس کا تعلق بوڑہ سب ڈویژن حسن خیل سے ہے۔ یاسر آفریدی دسویں کلاس کا اسٹوڈنٹ اور اپنے چھ بہنوں کا اکلوتا اور سب سے چھوٹا بھائی ہے، جو ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔
یاسر کی ماں نے محنت مشقت کر کے بغیر کسی سہارے کے اپنے بچوں کی پرورش کی ہے، اس کی یاسر سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔ یاسر کہتا ہے کہ یہ ان کا بہت غلط فعل تھا اور اس پر اسے انتہائی شرمندگی بھی ہے کہ اس نے غلط دوستوں کی صحبت اختیار کر کے اپنی ماں کی محنت مشقت سے کی ہوئی پرورش کو بھول کر منشیات کا استعمال شروع کر دیا، ”نشہ کرنے کی وجہ سے میں نے پڑھائی بھی چھوڑ دی اور فارغ گھومنے لگا۔ جب میری والدہ اور گھر والوں کو معلوم ہوا تو ان کو بہت دکھ ہوا اور انہوں نے بہت کوششیں کیں کہ میں منشیات کو ترک کر دوں۔ میری پڑھائی بھی متاثر ہوئی، اسکول سے بھی نکال دیا گیا۔ اب میں سوچ رہا ہوں یہ زہر تو ہمارا مستقبل تباہ کر رہا ہے، ایسی چیز کا استعمال ہم کرتے کیوں ہیں جس میں ہماری بربادی ہوتی ہے۔ اب میں نے چرس کا استعمال ترک کرنے کی ٹھانی ہے اور دوبارہ اسکول میں داخلہ بھی لے لیا ہے، اب میں پڑھوں گا اور اپنی والدہ کی امیدیں پوری کروں گا۔ میں اپنے دوستوں کو بھی اس لعنت سے منع کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔”
خیبر پختونخوا کے دیگر علاقوں کی طرح سابقہ ایف آر پشاور بھی منشیات کی لپیٹ میں ہے۔ مقامی پولیس نے بتایا کہ ہم نے منشیات کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور مزید روک تھام کیلئے اقدامات جاری ہیں۔
لیکن دوسری طرف پولیس کی کارکردگی سے اہل علاقہ خوش نہیں ہیں۔ بوڑہ سے تعلق رکھنے والے ایک مقامی مشر کے مطابق پورے ایف آر پشاور کی آبادی 64000 ہے جبکہ یہاں پینتالیس فیصد تک منشیات کا استعمال کیا جاتا ہے، جس میں پینتیس فیصد چرس جبکہ %5 فیصد تک مختلف نشہ آور اشیاء کا استمعال ہوتا ہے، نشہ کرنے والوں میں زیادہ تر 17 تا 22 سال تک کے بچے اور جوان شامل ہیں۔
مقامی مشر کے مطابق کئی دفعہ قومی جرگے کی سرپرستی میں منشیات کے خلاف آواز اٹھائی گئی جو بے نتیجہ ثابت ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے بوڑہ سب ڈویژن حسن خیل کی آبادی تقریباً پانچ ہزار تک ہے لیکن افسوس کہ اتنی کم آبادی میں بھی یہاں چرس کا نشہ سرعام کیا جاتا ہے جبکہ نشہ آور اشیاء کے استعمال میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے پولیس اداروں کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھایا کہ ان کو معلوم بھی ہے کہ اس جرم میں کون ملوث ہے، منشیات کہاں سے اسمگل ہوتی ہے، سارے معاملے سے باخبر ہیں، پولیس نے کئی دفعہ کارروائی بھی کی ہے لیکن دو تین ہزار کی رشوت لے کر ملزمان کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔
ایف آر پشاور کے مقامی مشران کا کہنا ہے کہ علاقے کی اکثریت پسماندہ طبقے سے ہے، ”ہم اپنے بچوں کو محنت مشقت سے پال کر اس دن کیلئے بڑا کرتے ہیں کہ کل ہمارا یہ سہارا بنیں گے لیکن علاقے میں یہ لعنت عام ہونے سے ہمارے بچے آگ کی لپیٹ میں آ چکے ہیں جہاں ہماری ساری امیدیں ختم ہو جاتی ہیں۔ انہوں نے دعوی کیا کہ فاٹا انضمام سے قبل علاقہ اس لعنت سے محفوظ تھا لیکن انضمام کے بعد پولیس کی چوکیاں جگہ جگہ بن چکی ہیں اس کے باوجود منشیات فروشی عام ہو گئی ہے، اب ہر تیسرے خاندان کا ایک بچہ یا نوجوان منشیات کی لت میں مبتلا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر انتظامیہ چاہے تو وہ اس علاقہ میں منشیات کی روک تھام یقینی بنا سکتی ہے، ”پولیس حکام اگر سخت ایکشن لیں، ملوث افراد کو سخت سے سخت سزائیں دلوائیں تو دوسروں کی جرت نہ ہو گی کہ وہ دو تین سو روپے کے لالچ میں چھوٹے بچوں کے ہاتھ میں نشہ تھما کر ان کا مستقبل تباہ کریں، اس مکروہ دھندے میں ملوث افراد کے ساتھ ساتھ عوام کی جان و مال کی ذمہ دار پولیس، انتظامیہ اور ساتھ میں مقامی مشران یا عوامی نمائندگان، سب کے سب انسانیت کے قتل میں شامل ہیں۔
مشران کے مطابق ابھی تک علاقے میں منشیات کے نقصانات سے متعلق آگاہی کے لئے اقدامات نہیں کئے گئے نہ ہی اہل علاقہ کی طرف سے کبھی کوئی احتجاج کیا گیا، ”حقیقت یہی ہے کہ حکومت یا انتظامیہ کو ہم سے کوئی ہمدردی تھی، ہے نہ رہے گی، اور ہم قبائل نے بھی خاموشی اختیار کر رکھی ہے، ہمیں اس لعنت کے خلاف خود عملی اقدامات کرنا ہوں گے، اور کچھ نہیں تو کم از کم اپنا احتجاج تو ریکارڈ کر سکتے ہیں۔”