خیبر پختونخوا یا ریڈ زون، مانسہرہ میں پانچ خواجہ سراء فائرنگ سے زخمی
خالدہ نیاز
مانسہرہ میں خواجہ سراؤں پر فائرنگ کے نتیجے میں پانچ خواجہ سراء زخمی ہو گئے۔ مانسہرہ سے تعلق رکھنے والی خواجہ سراء نادرا خان نے اس حوالے سے بتایا کہ یہ واقعہ اتوار کے روز یش آیا جس میں پانچ خواجہ سراؤں کو گولی مار دی گئی جس کی وجہ سے وہ زخمی ہو گئے، ان میں سے چار کی حالت تشویشناک جبکہ ایک کی حالت خطرے سے باہر ہے۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں نادرا خان نے بتایا کہ ان خواجہ سراؤں کو گھر پر ہی گولی ماری گئی، ان خواجہ سراؤں کا نو گھنٹے کا آپریشن ہوا اور اس وقت ایوب میڈیکل کمپلکس میں موت اور زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
خیبر پختونخوا خواجہ سراؤں کے لیے ریڈ زون ہے
نادرا خان نے کہا کہ خیبر پختونخوا خواجہ سراؤں کے لیے ریڈ زون ہے، انہوں نے سوال اٹھایا کہ خواجہ سراؤں کو تحفظ دینا کس کی ذمہ داری ہے؟ خواجہ سراؤں کی زندگیوں کو ہر لمحہ خطرہ ہے، ان کو تحفظ دینے کی ضرورت ہے، ان کے لیے کوئی پالیسی نہیں ہے اور نہ ہی کسی رولز ریگولیشن پر عمل درآمد ہو رہا ہے، مانسہرہ میں خواجہ سراؤں کے ضابطہ اخلاق پر چار ڈی پی اوز نے دستخط کئے ہیں لیکن اس پہ عمل درآمد نہیں ہو رہا جبکہ بعض لوگ سی سی ٹی وی کیمرے نصب نہیں ہونے دے رہے۔
نادرا خان نے کہا کہ وہ کسی کو نہیں چھوڑیں گی اور سب کو ایک ایک کر کے بے نقاب کریں گی، وہ آئے دن لاشیں اٹھانے سے تھک گئی ہیں، جہاں ان کا پروگرام ہوتا ہے وہ ریڈ ڈال دیتے ہیں، بند کرنا ہے تو قتل عام بند کر دو، جہاں فائرنگ ہوتی ہے ان کو بھگا دیا جاتا ہے، جو لوگ فائرنگ کرتے ہیں ان کو کیوں نہیں پکڑا جاتا، یہ لوگ تو روزی روٹی کے لیے ناچتے ہیں۔
خیبر پختونخوا میں 2015 سے لے کر اب تک 89 خواجہ سراء قتل
خواجہ سراؤں کی تنظیم ٹرانس ایکشن الائنس کی فرزانہ کے مطابق خیبر پختونخوا میں 2015 سے لے کر اب تک 89 خواجہ سراؤں کو مارا جا چکا ہے۔
ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے ارکان نے حکام سے مجرموں کو جوابدہ ٹھہرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ خواجہ سرا نایاب علی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک بیان میں کہا ہے کہ کے پی پولیس ہم چھوٹے بچے نہیں ہیں ایسے گینگز کے خلاف سخت کاروائی کرنی چاہئے۔
خواجہ سراؤں پر حملے اکثر رپورٹ بھی نہیں ہوتے
ٹی این این کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو میں خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے قمر نسیم نے بتایا کہ خیبر پختونخوا میں خواجہ سراؤں پر حملوں میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے جن میں سے اکثر رپورٹ بھی نہیں ہوتے۔
انہوں نے کہا کہ خواجہ سراؤں کے لیے جو قانون بنایا گیا ہے اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا اور ان کی کوئی پروٹیکشن پالیسی نہیں ہے جبکہ پولیس نے اس حوالے سے جو کمیٹی بنائی تھی دو تین سال گزرنے کے باجود ابھی تک اس کی ایک میٹنگ تک نہیں ہوئی۔
قمر نسیم نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ خواجہ سراؤں پر ایک مخصوص گروہ تشدد کرتا ہے ایسا نہیں ہے کہ عام لوگ خواجہ سراؤں پر تشدد کرتے ہوں، جن پر بیس یا تیس پرچے ہو چکے ہیں لیکن ان کو سزا نہیں ملتی اور ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ خواجہ سراء خود بھی پھر سامنے نہیں آتے، کیسز کو فالو نہیں کرتے، زیادہ تر کیسز میں صلح بھی کر لیتے ہیں یا تو وہ لوگ ان کو پیسے دیتے ہیں یا پھر یہ لوگ خوف کی وجہ سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔
قمر نسیم نے کہا کہ پولیس کے لیے کوئی ضابطہ اخلاق موجود نہیں ہے جبکہ اس کے علاوہ خواجہ سراؤں کے لیے بھی کوئی مخصوص ضابطہ نہیں ہے، خواجہ سراؤں کو کہا گیا ہے کہ وہ کیمرے لگائیں لیکن نہیں لگاتے اور نہ ہی مالک مکان ان کو کہتا ہے کہ کیمرے لگا لیں۔
خواجہ سراؤں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کو تحفظ دیا جائے اور ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے تاکہ آئندہ کوئی ان کے ساتھ زیادتی نہ کر سکے اور نہ ہی ان کو قتل کر سکے۔