بونیر کی صبیحہ نے جیتے جی والد کے گھر نا آنے کی قسم کیوں اٹھائی تھی؟
نصیب یار چغرزئی
یہ کہانی اس لڑکی کی ہے جس کی پر تشدد کی فوٹو سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ اس لڑکی کا نام صبیحہ اور عمر 27 سال تھی۔ باپ نے اس کی شادی اپنے بھتیجے سے کروائی تھی یہ سوچ کر کہ بھائیوں کا رشتہ اور بھی مضبوط ہو گا۔
شادی کے بعد صبیحہ سسرال کے ہاں خوش نہیں تھی کیونکہ وہ لوگ اس کے ساتھ ظلم و زیادتی کر رہے تھے، صبیحہ اپنے باپ کے گھر آ گئی۔
صبیحہ کے والد عمر رحمان دس سال پہلے کی کہانی یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بیٹی جب سسرال والوں کے ظلم سے تنگ آ کر ہمارے پاس آ گئی تو میرے بھائی نے جرگہ بھیج دیا، ”میں نے جرگے کے ہاتھ صبیحہ کو شوہر کے ساتھ بھیج دیا، جاتے وقت صبیحہ رو رو کر بتا رہی تھی کہ یہ مجھے مار ڈالیں گے، مجھے نہ بھیجیں، میں نے کہا اب جو بھی ہے میں نے ہاں کر دی ہے تو میری بچی نے قسم اٹھائی کہ جب تک زندہ ہوں آپ کے گھر نہیں آؤں گی، اس دن سے لے کر دس سال تک ہمارے گھر نہیں آئی، آج آئی بھی تو ٹکڑے ٹکڑے ہو کر آئی۔”
ان کی پڑوسی ایک خاتون نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جب سے صبیحہ کے باپ نے جرگے کے ہاتھ اس کو شوہر کے ساتھ بھیجا تو اس دن کے بعد اس لڑکی کو کھانا پورا نہیں ملتا تھا، گھر کے سارے کام جن میں مال مویشی کے لئے پانی لانا وغیرہ شامل تھا، کیا کرتی تھی لیکن اس نے اپنی ضد اور قسم پوری کرنے کی وجہ سے باپ کے گھر کا دروازہ نہیں دیکھا۔
صبیحہ پر تشدد کے حوالے سے ڈاکٹر نثار نے بتایا کہ اس لڑکی کے ساتھ انتہائی ظلم ہوا ہے، لڑکی کے والد نے کہا کہ پہلے دس روز تک کھانا نہ دینا پھر اس پر باری باری سے تشدد کرنا انسانیت سوز واقعہ ہے۔
پولیس ایف آئی آر میں خاتون کے شوہر احمد علی، شوہر کی بہن آسیہ، سسر سید کمال اور ساس حسن بہا کو نامزد کیا گیا ہے جن کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔
یہاں یہ بات قابل افسوس ہے کہ جس دن صبیحہ کو قتل کیا گیا دو دن تک لاش گھر میں رکھنے کے بعد ان کے والد کو فون کے ذریعے بتایا گیا کہ تمھاری بیٹی گھر کی چھت سے گر گئی ہے، والد نے بھی غفلت کا مظاہرہ کیا، لاش کو گھر لایا، تشدد کا پتہ چلنے کے باوجود لاش کو دفنایا کچھ بھی نہیں کہا، دو دن بعد رشتہ داروں کو خبر ہوئی، پولیس کو رپورٹ کیا لاش کو نکال کر ہسپتال لے کر آ گئے، پوسٹ مارٹم ہوا، پولیس نے اپنی مدعیت میں دفعہ 174 کے تحت مقدمہ درج کر کے تفتیش کا آغاز کر دیا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ان ظالموں کو سزا ملے گی یا حوا کی دیگر سیکنڑوں بیٹیوں کی طرح اس کیس میں بھی ملزمان بری ہو کر موج مستیاں کریں گے۔
اس کیس کے حوالے سے ہیومن رائٹس ویلفیئر اینڈ جسٹس آرگنائزیشن جو انسانی حقوق کے لیے لوکل سطح پر کام کر رہی ہے، اس کے چیئرمین ھشتمند خان نے کہا کہ اس واقعے کے بعد ہم نے اپنی طرف سے تفتیش کی جس میں یہ بات سامنے آئی کہ خاتون کے لواحقین اس کیس سے مطمئن ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اس کو ماورائے عدالت کیس کہتے ہیں کیونکہ اپنی مرضی سے اس خاتون پر تشدد کرنا انتہائی ظلم ہے، اس حوالے سے ہماری معلومات کے مطابق پولیس کام کر رہی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس طرح کیسز میں کڑی سے کڑی سزا ملزمان کو دینی چاہیے تاکہ آئندہ پھر ایسا کرنے کا کوئی سوچ بھی نہ سکے۔
خاتون کو قتل کرنے کا ایک اور کیس جو ڈگر کی فیملی عدالت میں سترہ فروری کو اس وقت پیش آیا تھا جب ریگا بیشپور سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون اپنے منگیتر سے خلع کے کیس میں پیشی کے لیے آئی تھی، منگیتر نے عدالت کے احاطے میں اس پر فائرنگ کر دی جس سے وہ زخمی ہوئی، ڈی ایچ کیو ہسپتال پہنچانے کے بعد اس کو پشاور ریفر کر دیا گیا لیکن وہ راستے میں ہی جاں بحق ہو گئی۔
ان دونوں کیسز کو دیکھ کر اس سوال کا جواب ملتا ہے کہ کیا خواتین کو بھی مرد جتنا حق حاصل ہے۔