سوات: نئی نویلی دلہن کو شوہر سمیت ذبح کر کے قتل کر دیا گیا
خالدہ نیاز
سوات میں نئی نویلی دلہن کو شوہر سمیت ذبح کر کے قتل کر دیا گیا۔ تھانہ چارباغ پولیس کے مطابق قتل کئے گئے دونوں میاں بیوی کی عمریں 19 سے 20 سال کے درمیان ہیں جو کوہستان کے رہائشی تھے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ واقعے کی ایف آئی آر نامعلوم افراد کے خلاف درج کی گئی ہے اور بظاہر ان دونوں میاں بیوی لاہوری بی بی اور مجیب الرحمان کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق ان کو قتل کیے جانے والے میاں بیوی کے مالک مکان کی جانب سے اطلاع ملی کہ آج صبح جب زلزلے کے جھٹکے محسوس ہوئے تو انہوں نے دونوں میاں بیوی کو آواز دی تاہم اس جانب سے کوئی آواز نہ آئی جس کے بعد انہوں نے اپنے بیٹے کو بھیجا تو اس نے واقعے کا بتایا۔
پولیس نے بتایا کہ نکاح نامے سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں نے پانچ چھ روز قبل شادی کی تھی اور کوہستان سے یہاں آئے تھے اور کرائے کے مکان میں رہائش پذیر تھے۔
صرف 2015 میں ایک ہزار سے زائد خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا
پاکستان اور خاص کر خیبر پختونخوا میں خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کرنے کا سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے۔ گزشتہ برس صرف نومبر کے مہینے میں پانچ خواتین کو قتل کیا گیا جن میں دو غیرت کے نام پہ جبکہ 3 کو گھریلو ناچاقی پر قتل کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:
غیرت کے نام پر قتل اب اور نہیں
کیا غیرت کے نام پر قتل لڑکے لڑکی کا کفن اور جنازے کا بھی حق نہیں؟
تیراہ: دو خواتین سمیت پانچ افراد کا غیرت کے نام پر قتل، بات باہر کیسے نکلی؟
ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق 2020 میں پاکستان میں غیرت کے نام پر 422 مردو خواتین قتل ہوئے جبکہ 2019 میں یہ تعداد 380 تھی۔ انسانی حقوق کمیشن کے مطابق 2015 میں 1096 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا، 2014 میں غیرت کے نام پر قتل ہونے والی خواتین کی تعداد 1005 ہے جبکہ 2013 میں 869 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔
غیرت کے نام پر قتل: اسلام کیا کہتا ہے؟
مذہبی سکالر مفتی شوکت اللہ خٹک نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایسے مرد اور خواتین جنہوں نے نکاح کیا ہو ان کو غیرت کے نام پر قتل کرنا جائز نہیں ہے اور ان کا قتل ایسا ہی ہے جس طرح کسی کو ناحق کر دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شادی کے معاملے میں بہتر ہوتا ہے کہ لڑکی یا لڑکا اپنے بڑوں سے مشورہ کر لے اور ان کی رضامندی سے شادی کر لیں تاہم اگر کوئی لڑکا یا لڑکی والدین کی مرضی کے خلاف شادی کر لے تو ان کے قتل کی اجازت نہ تو کسی انفرادی شخص کو ہے نہ خاندان والوں کو او نہ ہی ریاست کو بلکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ اس سلسلے میں ایک مصالحتی کمیٹی بنائی جائے جو اس کا خوش اسلوبی کے ساتھ کوئی راستہ نکالے لیکن ایسی لڑکی کو قتل کرنا ناحق خون بہانے کے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کا قانون
پاکستان میں غیرت کے نام پہ قتل کا قانون 2004 سے موجود ہے تاہم زیادہ ترمقدمات میں ایسا ہوتا تھا کہ مدعی قتل کرنے والے کے ماں باپ یا بہن بھائی ہوتے تھے جو ان کو معاف کر دیتے تھے اور یوں مقدمہ ختم ہو جاتا تھا۔
تاہم اکتوبر 2016 میں غیرت کے نام پر قتل قانون کے قانون میں ترمیم منظور ہوا۔ قانون کے تحت غیرت کے نام پہ قتل کو ناقابل تصفیہ قرار دیا گیا ہے اور مرنے والے کے لواحقین کی جانب سے معافی کی صورت میں بھی مجرم قرار دیئے جانے والے کو عمر قید سے کم سزا نہیں دی جا سکے گی۔
‘والدین چاہتے ہیں ان کے بچے ان کی طرح زندگی گزاریں’
وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن نتاشہ سُمن نے غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں اضافے کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ آج کل کے جنریشن اور پچھلی جنریشن کے ذہنی لیول میں بہت فرق ہے، دوسری اہم بات یہ ہے کہ تعلیم کی بھی بہت کمی ہے، ہمارے ہاں زیادہ تر خواتین نے نہ تو خود تعلیم حاصل کی ہے اور نہ ہی انہوں نے اپنی بیٹیوں کو تعلیم دلوائی ہے ایسے میں اگر ان کی بیٹی کسی کو پسند کرنے کے حوالے سے بات کرتی ہے تو ان کو عجیب لگتا ہے اور اس کی مخالفت شروع ہو جاتی ہے۔ والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچے ویسی زندگی گزاریں جو وہ آج سے 30 سال پہلے گزار رہے تھے لیکن آج کل کے دور میں ایسا ممکن نہیں ہے۔
نتاشہ سُمن نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں غیرت کے نام پر قتل زیادہ ہوتے ہیں لیکن ان کو رپورٹ نہیں کیا جاتا اور اس حوالے سے کیسز بھی فائل نہیں ہوتے کیونکہ عموماً قتل کے ایسے واقعات میں گھر کے مرد ملوث ہوتے ہیں تو اس بات کو دبا دیا جاتا ہے۔
کیا غیرت کے نام پر قتل میں کمی لائی جا سکتی ہے؟
مفتی شوکت اللہ خٹک کے مطابق غیرت کے نام پر قتل کی روک تھام تب ہی ممکن ہو پائے گی جب تعلیم زیادہ ہو گی، والدین اور اولاد میں زیادہ فاصلہ نہ ہو اور اولاد اپنے والدین کے ساتھ سب کچھ شیئر کر سکتی ہو اور اگر ایک لڑکی یا لڑکے کو شادی کے لیے کوئی پسند آ جائے تو وہ اس کا اظہار والدین کے سامنے کر سکتا ہو پھر والدین کو بھی اس کو انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔ اس کے علاوہ علماء کرام اور مشران کو بھی چاہیے کہ وہ ایسے لوگ جو غیرت کے نام پر قتل میں ملوث ہوں ان کا سوشل بائیکاٹ کریں اور ایسے قتل کی مذمت بھی کریں۔
غیرت کے نام پر قتل میں کس طرح کمی آ سکتی ہے اس حوالے سے نتاشتہ کہتی ہیں کہ اس سلسلے میں سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا، اس حوالے سے سے معلوماتی سیشنز ہونے چاہئیں کہ اگر کوئی اس طرح قتل کرتا ہے تو اس کو کتنے سال کی سزا ہو سکتی ہے یہاں تک کہ پھانسی بھی کیونکہ زیادہ تر لوگوں کو غیرت کے نام پر قتل کے قانون کا بھی نہیں پتہ، دوسرا ہمارے والدین کو بھی یپہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اب پہلے جیسا وقت نہیں رہا، آج کل کی جنریشن پہلے جیسی نہیں رہی اب تعلیم اور آگے بڑھنے کا دور ہے، والدین کو بھی اپنے بچوں کو سمجھنا ہو گا اور اس کے ساتھ اگر کہیں غیرت کے نام پر قتل ہوتا ہے تو اس پہ چپ نہیں رہنا چاہیے بلکہ عدالت سے رجوع کرنا چاہیے۔