ڈولی نہیں تابوت: افغٖانستان میں قتل ہونے والی زینب کی چند دن بعد شادی تھی
خالدہ نیاز
افغانستان میں زینب نامی ایک نوجوان لڑکی کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا ہے۔ زینب کے اہل خانہ نے دعویٰ کیا ہے کہ زینب کو سیکیورٹی چوکی پر اس وقت گولی مار کر ہلاک کیا گیا جب وہ شادی کی تقریب سے دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ گھر جا رہی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ زینب کی گاڑی کو اسلامی امارات کے اہلکاروں نے ایک چیک پوائنٹ پر روکا اور زینب پر فائرنگ کھول دی اور اس کو قتل کر دیا۔
زینب کے خاندان نے امارات اسلامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مجرموں کا محاسبہ کرے۔ طلوع نیوز کے مطابق زینب کی بہن نے بتایا کہ ‘گولی کار کو پار کر کے میری بہن کے دل پر لگی اور میری بہن میری گود میں مر گئی۔’
رپورٹس کے مطابق زینب ایک بینک میں کام کر رہی تھی اور جلد ہی اس کی شادی بھی ہونے والی تھی۔ زینب کے والد کا کہنا ہے کہ وہ گھر کی واحد کفیل تھی۔
افغانستان سے تعلق رکھنے والی قاندی صافی جو اس وقت پشاور میں رہائش پذیر ہیں، انہوں نے بتایا کہ زینب کو مارنے کا واقعہ گزشتہ شب پیش آیا، وہ کسی شادی سے واپس آ رہی تھیں جب طالبان نے ان کو اشارہ کیا اور وہ ڈر کے مارے بھاگ گئیں جس کے بعد انہیں قتل کر دیا گیا، ”طالبان نے خواتین کے اکیلے سفر کرنے پر پابندی لگائی ہے اور زینب کو اسی پاداش میں مارا گیا ہے۔”
انہوں نے کہا کہ یہ ایک غیرانسانی اقدام ہے جبکہ یہ واقعات افغانستان میں روزانہ کی بنیاد پر ہو رہے ہیں لیکن رپورٹ نہیں ہوتے، ”زینب کا لوگوں کو اس لیے پتہ چل گیا کیونکہ یہ بات میڈیا تک پہنچ گئی، کئی روز پہلے بھی مزار میں دو خواتین لاپتہ ہو گئی تھیں، بعد ازاں کی لاشیں مل گئی تھیں، اس کے علاوہ کچھ عرصہ پہلے مزار سے چالیس ان افراد کو لے جایا گیا تھا جنہوں نے احتجاج میں حصہ لیا تھا اور ان کے ساتھ جنسی زیادتی بھی کی گئی تھی لیکن ان لوگوں کو اتنا ڈرایا گیا ہے کہ وہ یہ بات میڈیا کے سامنے کر بھی نہیں سکتے اور افغانستان میں تو ویسے بھی آزاد میڈیا نہیں ہے۔”
قاندی صافی نے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا ‘کچھ دن پہلے ایک خاتون پاکستان آنا چاہ رہی تھی، اس کا خاوند جنگ میں شہید ہو چکا ہے اور اس کا کوئی بیٹا نہیں ہے صرف بیٹیاں ہیں تو اس نے کسی پرائے مرد کو اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھایا کیونکہ افغانستان میں طالبان نے خواتین کے الگ سفر کرنے پر پابندی لگائی ہے، وہ طورخم تک اس کے ساتھ آیا اور واپس چلا گیا تو طالبان کو اگر لگتا ہے کہ خواتین کو مرد کے بغیر سفر نہیں کرنے دیں گے تو وہ خواتین جن کے گھر میں مرد نہیں ہیں ایسا ہی کریں گی کیونکہ ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔’
انہوں نے انسانی حقوق کے اداروں پر بھی سوالیہ نشان اٹھائے جو افغانستان میں انسانی حقوق کی پامالی پر چپ ہیں۔
دوسری جانب امارات اسلامیہ نے کہا ہے کہ زینب کے قتل میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ کابل کے سکیورٹی ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان جنرل مبین نے کہا ہے کہ انہوں نے اس حوالے سے تفتیش شروع کی ہے اور جلد ہی میڈیا کے ساتھ معلومات شیئر کی جائیں گی۔
There is no one to respond…!
Why she was killed? #stoptaliban #zainab @UN_Women @UNHumanRights @AfgWomAdvGrp @UN @WomenRights08 pic.twitter.com/Rcvn5DXImN— Rohina Zaffari (@RohinaZaffari) January 14, 2022
زینب قتل کے حوالے سے ٹوئٹر بھی ٹرینڈ بنا ہوا ہے اور صارفین اس حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ روہینہ جعفری نامی صارف نے لکھا ہے کہ کوئی بھی جواب نہیں دے رہا کہ زینب کو کیوں قتل کیا گیا؟
#Zainab, a girl in western Kabul was shot by Taliban last night when she was returning home from a wedding party.
No one is safe here@UNHumanRights @unwomenafghan @UNICEFAfg @hrw @UN_HRC pic.twitter.com/BfwYwHjUCV— Azeem Azeemi (@Azeemazeemi1) January 14, 2022
عظیم عظیمی نامی ٹوئٹر صارف نے لکھا ہے کہ زینب کو شادی سے واپسی پر قتل کیا گیا جبکہ یہاں کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔
https://twitter.com/tahira35498602/status/1482054419940315136
طاہرہ سبحانی نامی ”یوزر” لکھتی ہیں کہ زینب کا کیا قصور تھا؟ اس کو بغیر کسی غلطی کے برچی (علاقے کا نام) میں قتل کیا گیا۔ انہوں نے سوال اٹھایا ہے کہ کب تک خواتین قربانی دیں گی اور ان کو اس گناہ کی سزا دی جائے گی جو انہوں نے کیا ہی نہیں ہے۔
افغانستان سے تعلق رکھنے والی سپیزلی زازئی بھی دس روز قبل پاکستان آ چکی ہیں کیونکہ افغانستان میں ان کی زندگی دوبھر ہو گئی تھی۔
ٹی این این کے ساتھ بات چیت کے دوران انہوں نے کہا کہ ان کے گھر میں کوئی مرد نہیں ہے جبکہ طالبان کی پابندیوں کی وجہ سے وہ گھر کا سودا سلف لانے سے بھی قاصر تھیں، ”افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد خواتین کی زندگی بہت مشکل ہو گئی ہے، ان کو بنیادی حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے، ان پر تعلیم کے دروازے بند کر دیئے گئے ہیں اور ان کو نوکری نہیں کرنے دیا جا رہا۔”
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں جو خواتین اپنے حقوق کے لیے جب قانونی طور پر یا پھر احتجاج کر کے آواز اٹھاتی ہیں تو ان کی آواز کو دبا دیا جاتا ہے۔ سپیزلی زازئی نے مزید کہا کہ افغانستان میں آدھی آبادی خواتین کی ہے جبکہ طالبان اس کوشش میں ہیں کہ ان کو بنیادی حقوق سے محروم کیا جائے، ”افغانستان میں کوئی بھی ایسی جگہ ایسا ادارہ نہیں رہا جہاں خواتین اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھا سکیں تو افغانی خواتین نے اب انسانی حقوق کے عالمی اداروں سے امیدیں لگا رکھی ہیں کہ ان کی آواز کو اٹھائیں گے اور ان کے حقوق کی بات کریں گے۔”
سپیزلی زازئی نے بتایا کہ اس بار وہ والا دور نہیں ہے، جس طرح پہلے طالبان کا دور تھا اب خواتین کے ساتھ اگر ظلم اور ناانصافی ہو گی تو وہ ضرور اس کے خلاف آواز اٹھائیں گی کیونکہ اب خواتین تعلیم یافتہ ہیں اور اپنے حقوق سے باخبر ہیں وہ اب خاموش نہیں رہیں گی۔