چارسدہ میں قرآن کی مبینہ بے حرمتی، مشتعل مظاہرین نے پانچ پولیس چوکیاں نذر آتش کر دیں
رفاقت اللہ رزڑوال
چارسدہ میں قران کی مبینہ بے حرمتی پر مشتعل مظاہرین نے تھانہ سمیت پانچ چوکیاں نذرآتش کردی۔ خیبرپختونخوا کے ضلع چارسدہ کے تحصیل تنگی کے علاقہ مندنی میں یہ واقعہ اس وقت سامنے آیا جب ایک شخص پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے قرآن کو نذرآتش کر دیا۔
مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت بھی مشتعل عوام ابھی بھی تھانے کے سامنے کھڑے ہیں۔ سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر شمالی ہشتنگر زون کے تمام پرائیویٹ سکولز بھی آج بند رہیں گے۔
چارسدہ کے ضلع انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اب تک تحقیقاتی محکموں کو یہ علم نہیں کہ گرفتار شخص نے واقعی قرآن کو نذرآتش کیا ہے یا نہیں لیکن مشتعل ہجوم نے تھانہ سمیت پانچ چوکیاں جلا دی۔
پولیس ترجمان صفی جان نے ٹی این این کو بتایا کہ 28 نومبر کو صبح 11 بجے کے قریب پولیس کو اطلاع ملی کہ تھانہ مندنی پولیس نے عوامی شکایات پر ایک شخص کو گرفتار کیا ہے جس نے مبینہ طور پر قرآن پاک کو نذر آتش کیا ہے۔
انہوں نے کہا "علاقہ مکینوں کا مطالبہ تھا کہ ملزم انکے حوالے کیا جائے تاکہ وہ انکے ساتھ حساب کتاب پورا کرلے مگر پولیس نے انہیں بحفاظت اپنے ساتھ لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا”۔
ترجمان نے بتایا کہ ہجوم کو ملزم کے حوالہ نہ کرنے کی پاداش میں مشتعل افراد نے پہلے تھانہ مندنی کا گیٹ توڑا، چاروں طرف دیواریں گرادی اور پھر اندر داخل ہونے کے بعد مال خانہ سے اسلحہ بھی اُٹھا کر لے گئے جبکہ بعد میں آبادی کو آگ لگا دی جس میں تھانے کے اندر پورا ریکارڈ سیمت مال مقدمہ کی گاڑیاں اور دیگر ریکارڈ جلایا۔
ترجمان کے مطابق مظاہرین نے پیش قدمی کرتے ہوئے مزید پانچ پولیس چوکیوں جن میں زیم، ڈھکی، جیندے اور شیرپاؤ کو بھی آگ لگا دی۔
ملزم کے پس منظر اور مبینہ جرم کے کوئی شواہد ملے ہیں کے سوال کے جواب میں پولیس ترجمان نے بتایا کہ بظاہر ملزم ایک نشئی اور ذہنی طور پر معذور شخص لگ رہا ہے جبکہ ابھی تک پولیس کو اس بارے میں کوئی ٹھوس شواہد نہیں ملے کہ کب، کیسے اور کس کے سامنے انہوں نے بے حرمتی کی ہے مگر پولیس کی تحقیقات جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ فی الحال واقعے میں کوئی ملزم گرفتار نہیں ہوا مگر سوشل میڈیا اور پولیس کے اپنی ریکارڈ سے ان افراد کی نشاندہی ہوچکی ہے جو واقعہ میں ملوث ہیں، سرچ اپریشن کرکے جلد گرفتار کریں گے۔
مقامی صحافی الف خان شیرپاؤ کا تعلق بھی تحصیل تنگی سے ہے اور دن بھر ان واقعات کی رپورٹنگ میں مصروف تھے، انکے مطابق تھانہ پر حملے سے پہلے مظاہرین اکھٹے ہونا شروع ہوئے اور ‘اللہ اکبر’ کے نعرے بلند کرتے رہے، مظاہرین کو پیچھے دھکیلنے کیلئے پولیس نے آنسو گیس اور ہوائی فائرنگ کی مگر کم نفری اور وسائل کی کمی کی وجہ سے وہ کامیاب نہ ہوسکے۔
انہوں نے بتایا کہ مشتعل ہجوم کے ساتھ کچھ اجنبی لوگ موٹرسائیکلوں پر جا رہے تھے اور چوکیوں کو آگ لگاتے، اسی دوران انہوں نے دیکھا کہ کچھ پولیس اہلکاروں نے بمشکل اپنی جانیں بچائی۔
یاد رہے کہ 29 اکتوبر کو تھانہ سٹی کے حدود میں مشتعل ہجوم نے قتل کے الزام میں ایک معذور شخص کے گھر کو پہلے آگ لگا دی اور پھر اسی آگ میں دونوں ٹانگوں سے محروم سلیمان نامی شخص کو جلایا تھا جبکہ واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو کر ہجوم کے قریب وردی میں ملبوس پولیس اہلکار بھی نظر آتے تھے۔
صبح سے شام تک تحصیل تنگی میں افراتفری اور مشتعل ہجوم کی پیش قدمی نے علاقے میں خوف و ہراس پھیلایا اور عوام کا ڈپٹی کمشنر سے فوج طلب کرنے کے مطالبہ زور پکڑنے لگا۔
ڈپٹی کمشنر چارسدہ سعادت حسین نے ٹی این این کو فوج کی طلبی پر بتایا کہ فی الحال حالات قابو میں ہیں اور علمائے کرام سے ضلعی انتظامیہ کی جانب سے مذاکرات جاری ہے۔
ڈپٹی کمشنر کا کہنا ہے "ہم فوج کے ساتھ رابطے میں ہیں مگر الحمدللہ اب تک صورتحال قابو میں ہیں اور سارے علمائے کرام کو انگیج کیا ہوا ہے، پولیس کی امداد کیلئے دیگر اضلاع سے پولیس پہنچے ہوئے ہیں۔ ”
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ کے 29 تاریخ کو پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی نے اپنے اعلامئے میں کہا تھا کہ کچھ گروپس اپنی سیاسی یا ذاتی مفادات کیلئے مذہب کا غلط استعمال کر رہے ہیں جس کی آڑ میں سرکاری اہلکاروں پر تشدد، املاک کو نقصان پہنچانا اور عام شہریوں کے خلاف تشدد کرنے والے عناصر کے خلاف کاروائی کے عزم کا اظہار کیا گیا تھا مگر بعد میں تشدد میں ملوث گروہوں کے ساتھ مذاکرت کرکے انکے مقدمات واپس لئے گئے۔