اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والی عورتیں، جبری مشقت اور استحصال کی کہانیاں

مہرین خالد
جبری مشقت ایک سنگین سماجی اور معاشی مسئلہ ہے، جو پاکستان سمیت دنیا کے کئی ترقی پذیر ممالک میں موجود ہے۔ پاکستان میں جبری مشقت کی سب سے عام شکل "پیشگی” (پیشگی قرض) ہے، جس میں مزدور کسی مالی ضرورت کے تحت مالکان سے قرض لیتے ہیں اور اس کے بدلے میں اپنی محنت کو قرض کی واپسی تک مشروط کر دیتے ہیں۔ یہ قرض بعض اوقات اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ نسل در نسل چلتا جاتا ہے، جس سے خاندانوں کی آزادی سلب ہو جاتی ہے۔
میں نے ڈیرہ اسماعیل خان شہر کے گرد و نواح میں واقع تین اینٹوں کے بھٹوں کا دورہ کیا، جہاں میری ملاقات ان خواتین سے ہوئی جو ان بھٹوں پر مشقت کر رہی ہیں۔ اس کا مقصد ان خواتین کی زندگی اور کام کے حالات کو قریب سے جاننا تھا۔ میں نے دیکھا کہ یہ خواتین شدید معاشی اور سماجی دباؤ کا شکار ہیں۔ ان کے لیے نہ صرف کام کا ماحول غیر محفوظ ہے بلکہ بنیادی سہولیات، جیسے باتھ رومز اور رہائش کی جگہیں بھی انتہائی ناقص ہیں اور غیر محفوظ ہیں ۔ ماہواری کے دوران انہیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جبکہ ان کے گھروں کی حالت اتنی خراب ہے کہ بھٹہ مالکان کسی بھی وقت اندر آ سکتے ہیں، جس سے خواتین کی نجی زندگی اور عزت دائمی خطرے میں رہتی ہے۔
اگرچہ یہ خواتین خود قرض نہیں لیتیں، مگر جب ان کے خاندانوں کے مرد حضرات کسی مجبوری — جیسے بیماری، مقدمہ یا شادی — کے باعث قرض لیتے ہیں تو یہ خواتین بھی اس قرض کی زنجیر میں بندھ جاتی ہیں اور مردوں کے ساتھ دن بھر مشقت پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ یوں وہ دن نکلنے سے سورج غروب ہونے تک اپنے مردوں کے ساتھ برابر کی مشقت کرتی ہیں، بغیر کسی تحفظ، اختیار یا آواز کے — محض زندہ رہنے کے لیے۔
مسرت کی کہانی
"بھٹوں پر کم عمر بچیوں کی شادیاں عام ہیں۔ اس کے ساتھ "وٹہ سٹہ بھی عام رواج ہے۔” یہ کہتے ہوئے مسرت بی بی نے بتایا کہ "ہمیں کیا پتہ کیا قانون کے مطابق ہے اور کیا خلاف۔ ہماری زندگیاں ان بھٹوں پر پس رہی ہیں اور یہ ظلم نسل در نسل ایسے ہی چلے گا۔ میری 12 سال کی عمر میں شادی ہوگئی میں چاہتی یا نہ چاہتی۔ اسی طرح آگے بھی ایسے ہی ہوگا۔ اب میں 17 برس کی ہوں اور میرے 2 بچے ہیں۔ جو اپنی ساری عمر اس بھٹے پر یا کسی اور بھٹے پر گزاریں گے۔” مجھے بتائیں کون ایسی زندگی اپنی مرضی سے بسر کرنا چاہیں گے، مسرت نے سوال کیا۔
مسرت بتاتی ہیں کہ اس وقت ان کی زندگی ایک بڑے بحران سے دوچار ہوئی جب ان کے والد ذہنی بیماری کا شکار ہو گئے۔ گھر میں علاج کے لیے پیسے نہیں تھے، تو ان کی والدہ نے بھٹہ مالک سے تین لاکھ روپے قرض لیا۔ اگرچہ اس رقم سے علاج کا آغاز تو ممکن ہوا، لیکن یہ قرض ان کی زندگی میں مجبوریوں، مشقت اور محرومیوں کا سبب بن گیا۔
بچپن سے ہی وہ صبح سے شام تک اپنی والدہ کے ساتھ اینٹیں بناتی رہی، اور جلد ہی اس کام کی ماہر بھی ہوگئی اور عادی بھی۔ مسرت کے مطابق، وہ محض گیارہ سال کی تھی جب اسے ماہواری شروع ہوئی، اور دوسری بار ماہواری شادی کے بعد ہوئی، یعنی وہ بلوغت کے فوراً بعد بیاہ دی گئی۔ اس کا کہنا ہے کہ ان کے علاقے میں جیسے ہی لڑکی بالغ ہوتی ہے، اس کی شادی کر دی جاتی ہے، کیونکہ گھروں میں بچے زیادہ اور وسائل کم ہوتے ہیں۔
مسرت نے بتایا کہ یہاں اکثر شادیاں ” ادلے بدلے” میں کی جاتی ہیں، یعنی جس لڑکے سے بیٹی بیاہی جاتی ہے، اس کے بدلے اپنی بیٹی دی جاتی ہے۔ اگر بدلے میں لڑکا موجود نہ ہو، تو لڑکی کی شادی کسی بھی رشتے دار مرد سے کر دی جاتی ہے، چاہے وہ عمر میں کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو — یہاں تک کہ بعض اوقات والد کی عمر کے مرد سے بھی شادی کر دی جاتی ہے۔ لڑکی کی رضامندی کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔
شادی کے ابتدائی سالوں میں مسرت نے بھٹے پر کام نہیں کیا، لیکن ان کے شوہر اور ان کے بھائی کام کرتے رہے۔ جب ان کے شوہر اور بھائیوں نے اپنے چچا سے زمین واگزار کرانے کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تو ان پر قرض چڑھتا چلا گیا — پہلے پانچ لاکھ، پھر بڑھتے بڑھتے تیرہ لاکھ روپے تک پہنچ گیا۔ عدالت سے کوئی فیصلہ نہ آیا اور زمین بھی نہ ملی، لہٰذا قرض اتارنے کے لیے پورا خاندان بھٹے پر مزدوری کرنے لگا۔ جب دوسری بیٹی پیدا ہوئی تو اخراجات بڑھنے لگے اور مسرت نے بھی بھٹے پر کام شروع کر دیا۔
مسرت نے بتایا کہ پہلے باپ کی بیماری کی وجہ سے قرضہ لیا۔ بھر شوہر اور اس کے بھائیوں نے اپنی زمین حاصل کرنے کے لیے قرضہ لیا۔ ہم عورتیں قرضے کی چکی میں گیہوں کے ساتھ گیہن کی طرح پس رہی ہیں۔ مردوں کے قرضوں کی واپسی کے لیے کبھی اس بھٹے پر تو کبھی اس بھٹے پر۔ ہمیں تو پتہ ہی نہیں یہاں سے ہٹ کر زندگی کیسی ہے؟ عمر بھر بھٹہ ہی دیکھا ہے۔ بارہ سال کی عمر میں دوسری ماہواری کے بعد شادی ہوگئی۔ پھر بھٹہ، بچے، خاوند اور سب کے لیے کھلے گھر بس اتنی سی زندگی گزاری۔
مسرت کا کہنا تھا کہ جس بھٹے پر وہ پہلے کام کر رہی تھیں، وہاں کا مالک خواتین مزدوروں کو جنسی طور پر ہراساں کرتا تھا۔ یہ بات سب جانتے تھے لیکن چونکہ سب مقروض تھے، کوئی آواز نہیں اٹھاتا تھا۔ مزدوروں کو جو گھر دیئے گئے تھے، ان میں مالک کسی بھی وقت بغیر اجازت داخل ہو جاتا، مردوں کو باہر نکال دیتا اور عورتوں کو ہراساں کرتا۔ مسرت نے بتایا کہ وہ اس ماحول سے ذہنی طور پر بہت پریشان ہو گئی تھی۔ مسلسل جسمانی مشقت کے ساتھ پرانے بھٹے پر ہراسانی نے جینا دوبھر کر دیا تھا۔ آخرکار اس کے شوہر نے وہ بھٹہ چھوڑ دیا اور ایک نئے بھٹے پر کام شروع کیا جہاں مسرت بھی ان کے ساتھ اینٹیں بناتی ہے ۔
روزینہ بی بی کی زندگی بھٹوں کے گرد گھومتی رہی
چالیس سالہ روزینہ بی بی کا تعلق ضلع ڈیرہ غازی خان، پنجاب سے ہے۔ وہ اس وقت اپنے شوہر کے ساتھ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل پروا میں ایک اینٹوں کے بھٹے پر کام کر رہی ہیں۔ روزینہ بی بی صبح نماز کے بعد سے مغرب تک مسلسل محنت کرتی ہیں۔ ان کی شادی کو دس سال ہو چکے ہیں، اور وہ اپنے شوہر کے ساتھ پہلے ڈیرہ غازی خان میں بھی بھٹے پر مزدوری کر چکی ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ ان کے سسر نے برسوں پہلے بھٹے کے مالک سے قرض لیا تھا، جسے چکانے کے لیے ان کے شوہر اور ان کے بھائی بچپن ہی سے اپنے والد کے ساتھ مزدوری کرتے آئے ہیں۔ یہ قرض آج تک ان کے سر پر بوجھ بنا ہوا ہے۔ روزینہ بی بی کے مطابق، ان کے شوہر پر آج بھی بھٹے کے مالک کا لاکھوں روپےکا قرض باقی ہے۔
ڈیرہ غازی خان میں، جہاں وہ پہلے کام کرتے تھے، وہاں کا بھٹہ مالک نہ صرف وقت پر ادائیگی نہیں کرتا تھا بلکہ جو رقم پیشگی واپس کی جاتی تھی، اسے قرض سے منہا نہیں کرتا تھا۔ چونکہ ان کے شوہر تعلیم یافتہ نہیں ہیں، اس لیے وہ کبھی بھی حساب کتاب سمجھ نہیں پائے، اور بھٹہ مالک اسی لاعلمی کا فائدہ اٹھاتا رہا۔
بعد میں، ان کے شوہر نے ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک دوسرے بھٹے کے مالک سے بات کی، جس نے ان کا پچھلا قرض چکا کر انہیں اپنے بھٹے پر بلایا۔ مگر یہاں آنے کے بعد بھی روزینہ بی بی کی مشکلات کم نہ ہوئیں۔ انہیں اور ان کے شوہر کو ہفتہ وار صرف چار سے پانچ ہزار روپے معاوضہ ملتا ہے۔ سادہ اینٹ بنانے پر فی اینٹ ایک روپیہ دیا جاتا ہے، اور چونکہ ایک ہفتے میں وہ صرف چار سے پانچ ہزار اینٹیں بنا سکتے ہیں، اس لیے ان کی کل اجرت بھی وہی ہوتی ہے۔ اس میں سے بھی پندرہ سو روپے ہر ہفتے قرض کی واپسی میں کاٹے جاتے ہیں۔ باقی رقم سے بچوں کی ضروریات پوری کرنا تقریباً ناممکن ہے۔
روزینہ بی بی کہتی ہیں کہ ان کے چھے بچے ہیں، اور انہیں تعلیم دلوانا اب ایک خواب سا لگتا ہے۔ وہ فکرمند ہیں کہ جیسے وہ اور ان کے شوہر قرض کی دلدل میں زندگی گزار رہے ہیں، ان کے بچے بھی شاید اسی چکر میں زندگی بسر کریں۔ "یہ قرض کبھی کم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ ہر چھوٹی بڑی ضرورت کے لیے ہمیں پھر سے قرض لینا پڑتا ہے۔”
بھٹہ مالک نے انہیں جو رہائش دی ہے وہ بھی انتہائی خستہ حال ہے: دو کمرے، ایک ہینڈ پمپ، اور ایک ایسا باتھ روم جس میں نہ چھت ہے، نہ دروازہ، اور نہ ہی فلش۔ روزینہ بی بی کہتی ہیں، "اس باتھ روم کو استعمال کرنا مجبوری ہے، مگر ہر بار خوف لگا رہتا ہے کہ کوئی دیکھ نہ لے۔”
مٹی اور ریت میں سارا دن کام کرنے کے باعث جسم کی صفائی بھی ضروری ہو جاتی ہے، تاکہ "پَت” نہ ہو جائے، مگر ماہواری کے دنوں میں صفائی ممکن نہیں ہوتی اور مختلف انفیکشنز ہو جاتے ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ حمل کے دوران بھی وہ بھٹے پر کام کرتی رہیں، اور زچگی کے اگلے ہی دن دوبارہ مزدوری پر جانا پڑتا کیونکہ اگر وہ نہ جائیں، تو روزمرہ کے اخراجات کیسے پورے ہوں گے؟ زندگی کیسے گزرے گی۔ "یہاں ہماری مدد کے لئیے کوئی نہیں آیا۔ کیونکہ بہت سارا کام زبانی کلامی ہوتا ہے۔ یہاں بیٹھے ہوئے ہم کیسے بھٹہ مالکان کے خلاف کچھ بھی کہہ سکتے ہیں” روزینہ بی بی نے کہا۔
تاہم اس حوالے سے بھٹہ ایسوسی ایشن کے صدر ملک محمد اسلم لچھرا کہتے ہیں کہ بھٹہ خشت مزدوروں کے پاس اتنی رقم نہیں ہوتی ہے کہ وہ اپنی ضروریات پوری کرسکے اس لیے جب ان کو شادی بیاہ، فوتگی، بیماری یا دیگر ضروریات کے لیے پیسے چاہیئے ہو تو یہ لوگ بھٹہ مالکان سے قرض لیتے ہیں بدلے میں وہ ان کے لیے بھٹہ میں کام کرتے ہیں ان کے گھر والے بھی ان کی مدد کے لیے ان کے ساتھ کام کرتے ہیں، ڈیرہ اسماعیل خان میں تقریباً دو سو کے قریب بھٹہ خشت ہیں جس میں ٪20 مزدوروں کے ساتھ خاندان کے باقی افراد بھی کام کرتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ حکومت ہمارے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعاون نہیں کرتی ہے۔ نہ ہمیں اور نہ ان مزدوروں کو کوئی لون ملتا ہے جس سے اپنی ضروریات پوری کرسکے اس لیے ان مزدوروں کے روزمرہ کے ضروریات کے لیے بھٹہ مالکان قرض دیتے ہیں ان کو ہفتہ وار پیسے ملتے ہیں اور ہم پوری کوشش کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ کسی قسم کا ظلم نہ کیا جائے۔
جدید دور کی غلامی کی ایک شکل جبری مشقت آج بھی مختلف شعبوں میں پائی جاتی ہے، جیسے اینٹوں کے بھٹے، زراعت، قالین سازی اور کان کنی۔ یہ عمل اکثر قرض کی آڑ میں یا زبردستی کام کروانے کی صورت میں جاری رہتا ہے۔ یہ رویہ نہ صرف پاکستان کے آئین بلکہ 1992 کے جبری مشقت کے خاتمے کے قانون کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے، جو ہر طرح کی جبری مزدوری کو غیر قانونی قرار دیتا ہے اور اس پر سزا مقرر کرتا ہے۔
کسی بھی مہذب معاشرے میں کسی انسان کو غلامی یا جبری خدمت پر مجبور کرنا ناقابلِ قبول ہے۔ ترقی پذیر ممالک، خصوصاً پاکستان میں، جبری مشقت ایک سنگین انسانی حقوق کا مسئلہ ہے، جسے متعلقہ قوانین کے سخت نفاذ کے ذریعے ختم کیا جانا ضروری ہے۔ اس کے لئیے لازم ہے کہ تمام متعلقہ حکومتی ادراے اپناکردار موثر طریقے سے ادا کریں”، یہ کہنا ہے خواجہ زاہد نسیم کا۔ وہ ناہیدہ محبوب الہی فاونڈیشن کے چیرپرسن ہیں جو معاشرے میں زد پذیر اور محروم طبقات کے قانونی مسائل کے حوالے سے کام کرتے ہیں۔
جبری مشقت کے بارے میں بات کرتے ہوئے اسسٹنٹ لیبر ڈائریکٹر محمد یعقوب کا کہنا ہے کہ ان کے لیے بھٹہ مزدوروں کی شناخت اور ان کے حالات معلوم کرنا بہت مشکل ہوتا ہے، کیونکہ اکثر بھٹہ مالک اور مزدور آپس میں ایسا معاہدہ کرتے ہیں جس میں وہ جبری مشقت کو چھپاتے ہیں۔ ان کی آپس کی ملی بھگت ہمارا کام بہت مشکل بنا دیتی ہے۔ "جب تک کوئی ہمیں نہ بتائے ہم کیسے کوئی ایکشن لے سکتے ہیں۔ اپنے حق کے لیئے آواز تو اٹھانی بنتی ہے۔”
پشاور ہائی کورٹ کے وکیل نعمان محب کاکاخیل کا کہنا ہے کہ جبری مشقت آئینِ پاکستان کے تحت ممنوع ہے۔ اور اس کی سخت ممانعت ہے۔ آئین کے آرٹیکل 11 کے مطابق، جبری مزدوری ایک جرم ہے، چاہے مزدور مرد ہو یا عورت۔ یہ آرٹیکل واضح طور پر جبری مشقت کی ہر شکل کو قابلِ سزا جرم قرار دیتا ہے۔
اسی طرح، آرٹیکل 25 کے تحت تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں، اور ریاست پر لازم ہے کہ وہ سب کو مساوی تحفظ فراہم کرے۔اس حوالے سے متعلقہ اداروں کو موثر اقدامات اٹھانے ہوں گے۔
علاوہ ازیں، آئین کا آرٹیکل 3 ہر قسم کے استحصال کے خاتمے کا ضامن ہے، اور اس میں یہ اصول طے کیا گیا ہے کہ ہر فرد کو اس کی صلاحیت اور کام کے مطابق معاوضہ دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔
یہ آئینی دفعات نہ صرف جبری مشقت سے تحفظ فراہم کرتی ہیں بلکہ دورانِ کام ہراسانی سے بھی بچاؤ کی ضمانت دیتی ہیں۔ اگر کسی مزدور کو اس کی محنت کا جائز معاوضہ نہ دیا جائے تو یہ بھی ایک قانونی جرم تصور ہوتا ہے۔
"باونڈڈ لیبر سسٹم ابولیشن ایکٹ 1992” کے تحت جبری مشقت کروانا ایک قابلِ سزا جرم ہے۔ اسی طرح پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 370 اور 374 کے تحت انسانی اسمگلنگ جرم ہے، جس میں جبری مزدوری بھی شامل ہے۔ یہ قوانین مرد و خواتین تمام مزدوروں کے حقوق کا تحفظ کرتے ہیں۔
اگر کہیں بھی کسی شخص سے جبری مزدوری لی جا رہی ہو، تو آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت اس کے خلاف عدالتی کارروائی کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ لیبر کورٹ میں مقدمہ دائر کیا جا سکتا ہے، یا متعلقہ لیبر انسپکٹر کو شکایت جمع کرائی جا سکتی ہے۔