بلاگزعوام کی آواز

ایک معلم کا اصل کام سکھانا، تربیت کرنا، اور کردار سنوارنا ہے یا قتل کرنا؟

حمیرا علیم

پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں تعلیمی اداروں اور مدارس میں طلباء کا ہر طرح سے استحصال کیا جاتا ہے اور استاد جنہیں انبیاء کا وارث کہا جاتا ہے وہ بھیڑیے بن جاتے ہیں۔ ہمارے دینی مدارس ہمیشہ سے روحانی و دینی تعلیم ، و اخلاقی تربیت کا گہوارہ سمجھے جاتے ہیں۔ اور ان کے فارغ التحصیل طلبا دنیا بھر میں دین پھیلانے کا فریضہ سر انجام دیے رہے ہیں۔ مگر افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان مقدس اداروں کی حرمت کچھ ایسے بھیڑیوں کے ہاتھوں پامال ہو رہی ہے جنہوں نے علم و دین کو تجارت، تسلط اور ہوس کا ذریعہ بنا لیا ہے۔

اکثر سوشل میڈیا، کسی نیوز چینل پر تعلیمی اداروں،  مدارس، مساجد حتی کہ گھر کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے اساتذہ اور قراء حضرات بچوں کا جنسی استحصال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔حال ہی میں چالیار میں مدرسے کے استاد نے ایک بچے کو تشدد کر کے ہلاک کر دیا۔ پانچ گھنٹے تک مسلسل پیٹتے رہنے کے بعد اسے پانی کا گھونٹ پینے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔ ہری پور میں ایک نابینا، پانچ سالہ بچے کو اس کے قاری نے اسی کمرے میں جنسی درندگی کا نشانہ بنایا جہاں وہ قرآن سیکھتا تھا۔ ایک اسکول کے تیرہ سالہ بچے کا استاد نے سر پھاڑ کر مار دیا۔

یہ واقعات صرف جرم نہیں، انسانیت پر داغ اور دین اسلام کی بدنامی کا باعث ہیں۔ قرآن کریم کا بنیادی پیغام محبت، ہمدردی اور انصاف ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔”

ایک معلم کا اصل کام سکھانا، تربیت کرنا، اور کردار سنوارنا ہے۔ آپ ﷺ نے کبھی کسی بچے پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔ انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "میں دس سال رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہا، کبھی انہوں نے مجھے نہ مارا، نہ ڈانٹا، نہ برا بھلا کہا۔” اللہ کہتا ہے نرمی اختیار کیجئے ورنہ لوگ آپ سے دور ہو جائیں گے۔

تو پھر آج کے یہ مدرسین، قاری حضرات، اساتذہ جو نبی کا نام لے کر بچوں کو تعلیم دیتے ہیں کیوں زہریلے بن گئے ہیں؟ کیوں ان کے ہاتھ بچوں کے جسموں پر زخم چھوڑ جاتے ہیں اور ان کی درندگی روحوں پر داغ؟

اس سب میں سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ مدارس کے طلباء کو اساتذہ یہ باور کراتے ہیں کہ یہ قبیح فعل اور مار پیٹ سیکھنے کے عمل کا حصہ ہے اور بچوں پر فرض ہے کہ وہ اساتذہ کو اس سے خوش کریں۔ اس پر متضاد اگر بچے والدین کو شکایت کریں تو والدین بجائے انہیں پروٹیکٹ کرنے کےانہی کو پڑھائی سے بھاگنے کا بہانہ کہہ کر قصوروار ٹھہراتے ہیں ۔جیسے کہ چالیار کیس میں بچہ اس قدر خوفزدہ تھا کہ اس نے مدرسہ جانے سے انکار کیا تو چچا زبردستی چھوڑ کر آئے۔

اکثر ایسے واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے کیونکہ والدین کے دماغوں میں یہ بات راسخ کی جا چکی ہے کہ تشدد کے بناء حفظ یا پڑھائی ممکن ہی نہیں۔خواہ بچہ اپنی جان کی بازی ہار جائے والدین استاد کے خلاف رپورٹ نہیں کرواتے۔ بعض اوقات مدرسے کا اثر و رسوخ، والدین کا ڈر یا لاچاری، بچوں کا خوف اور شرمندگی، سماجی بدنامی بھی وجہ ہوتے ہیں۔

ایسی خاموشی جرم کو تقویت دیتی ہے۔ یہ درندے جانتے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوگی، لہٰذا وہ مزید بے خوف ہو کر بچوں پر ظلم کرتے ہیں۔ اگر صرف ایک مجرم کو شرعی سزا سر عام دے دی جائے تو دوسرے مجرمانہ ذہنیت والوں کو آئندہ ایسا کچھ کرنے کی جرات ہی نہ ہو۔

اسلام نے بچوں کی عزت، تحفظ اور حقوق کا واضح تصور دیا ہے۔ جو شخص معصوم بچوں پر ظلم کرے وہ صرف مجرم نہیں بلکہ شرعاً حدود کا مستحق ہے۔ زنا یا بدفعلی کی سزا (اگر جرم ثابت ہو جائے) قرآن کے مطابق: "زانی مرد اور زانی عورت کو سو کوڑے مارو۔” النور 2

اگر بچہ نابالغ ہو، کمزور ہو، یا نابینا ہو، تو ظلم کی شدت اور مجرم کی سزا دونوں میں اضافہ ہونا چاہیے۔ علماء کی اکثریت کا موقف ہے کہ اگر جنسی زیادتی کے ساتھ ساتھ تشدد یا قتل بھی ہو تو شرعاً سزاۓ موت دی جا سکتی ہے۔ ایسی سزا صرف انصاف کا تقاضا نہیں بلکہ معاشرے کے لیے عبرت بننے کا ذریعہ بھی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا تعلیمی ادارے یا مدارس وہ مقصد پورا کر رہے ہیں جن کے لیے تعمیر کئے گئے تھے یا صرف متشدد، جنسی درندے اور قاتل تیار کرنے کے گڑھ بن چکے ہیں؟ مدارس کا تقدس قائم رکھنا پوری قوم کی ذمہ داری ہے۔ مدارس کو نہ صرف رجسٹر کیا جائے بلکہ مانیٹر بھی کیا جائے۔ بچوں کے تحفظ کے لیے قوانین بنائے جائیں۔ اساتذہ کی

اسکریننگ، نفسیاتی، تعلیمی ٹیسٹس اور تربیت۔قاری یا مدرسہ استاد بننے کے لیے صرف تجوید یا حفظ کافی نہیں۔ نفسیاتی اور اخلاقی معیارات کو لازمی قرار دیا جائے۔ بچوں کے لیے ہیلپ لائن اورایسا پلیٹ فارم بنے جہاں بچے یا والدین بلا خوف شکایت درج کروا سکیں۔

والدین کا فرض ہے کہ وہ دینی ادارہ سمجھ کر آنکھیں بند نہ کریں اعتماد نہ کریں۔ بچوں کی بات سنیں۔ اگر وہ مدرسے یا قاری کے پاس جانے سے انکار کریں، تو زبردستی نہ کریں۔ وجہ جانیں، ان پر یقین کریں ان کی حفاظت کریں۔

بچوں کو مساجد و مدارس بھیجنے کی بجائے گھر پر دینی تعلیم کا بندوبست کریں اگر افورڈ کر سکتے ہیں تو آن لائن پڑھوائیں۔ لیکن یہاں بھی نگرانی کرتے رہیں۔ کال یا پڑھائی ایسی جگہ ہو جہاں اہل خانہ کی نظر رہے۔ آج کل خفیہ کیمرے دستیاب ہیں ان کا استعمال کیا جائے اور اگر قاری یا استاد کے رویے میں کوئی غیر اخلاقی بات دکھائی دے تو فورا پولیس سے رابطہ کیا جائے۔

اگر تعلیمی ادارے، مدارس بچوں کو تعلیم و تربیت کی بجائے دکھ ، شرمندگی، خوف اور زندگی بھر کا روگ دے رہے ہیں تو انہیں بند کر دینا چاہیے۔ اگر اصلاح اور ان درندوں کو کیفر کردار تک پہنچانا ممکن نہیں تو بچے جاہل ہی ٹھیک ہیں کہ کم از کم ان کی معصومیت تو برقرار رہے گی وہ زندہ تو رہیں گے نا۔

دین کی تعلیم تبھی مؤثر ہے جب وہ شفقت، کردار، اور رحم کے ساتھ دی جائے۔ آج ہمیں اپنے معاشرے، اپنے نظام تعلیم، اور دینی اداروں پر نظرثانی کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کی حفاظت ہر حال میں کرنی ہے۔ چاہے اس کے لیے کچھ سخت فیصلے کیوں نہ لینے پڑیں۔

یہ چند واقعات نہیں خاموش چیخیں ہیں ان بچوں کی جو اب بول نہیں سکتے، جو ڈر کے مارے کچھ کہہ نہیں سکتے، یا جو قبر میں جا چکے ہیں۔خدارا! اپنے بچوں کو اپنے ہاتھوں سے اندھیرے میں نہ دھکیلیں۔

اگر وہ مدرسے یا اسکول نہ جانا چاہیں، تو زبردستی نہ کریں۔ ان کی بات سنیں، ان کی کیفیت سمجھیں۔ بچوں کی حفاظت صرف جسمانی نہیں، جذباتی، روحانی اور ذہنی تحفظ بھی ہمارا فرض ہے۔

اسلام ظلم کا دین نہیں بلکہ رحمٰن کے دین کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے بچوں کو ہر شیطان صفت درندے سے محفوظ رکھے، ہمارے تعلیمی اداروں کو امن، کردار اور محبت کے مراکز بنائے، اور ہم سب کو ظلم کے خلاف بولنے، لڑنے اور انصاف قائم کرنے کی توفیق دے۔ آمین۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button