ایک ہی کام، عہدہ اور محنت پھر بھی خواتین کی تنخواہ %30 کم کیوں؟

صدف سید
صبح کے وقت عدالت کی راہداری میں ایک بار پھر وہی چہرے، وہی فائلیں، وہی بھاگ دوڑ نظر آ رہی تھی۔ میں، ایک وکیل کی حیثیت سے، ہر روز ان راہداریوں میں انصاف کے لیے جدوجہد کرتی ہوں۔ میں مقدمات کی تیاری کرتی ہوں، گھنٹوں عدالت میں کھڑی ہوتی ہوں، دلائل دیتی ہوں، فیصلوں کا انتظار کرتی ہوں ، اور میرے ساتھ کھڑی کئی خواتین وکلاء بھی۔ ہم سب ایک ہی جذبے سے، ایک ہی قانون کے دائرے میں کام کرتے ہیں، مگر اس کے باوجود ہمیں برابر معاوضہ نہیں دیا جاتا۔
یہ مسئلہ کوئی نیا نہیں۔ ہم برسوں سے اس کی نشاندہی کر رہے ہیں، آواز اٹھا رہے ہیں، ثبوت فراہم کر رہے ہیں۔ مگر ریاست، ادارے، یہاں تک کہ پشاور کی حکومت تک بھی سب اس مسئلے پر چپ سادھے بیٹھے ہیں۔
ہر سال بجٹ آتا ہے، نئی پالیسیاں بنتی ہیں، خواتین کی ترقی کے دعوے کئے جاتے ہیں، مگر جب عملی اقدامات کا وقت آتا ہے تو وہی پرانی خاموشی۔ پشاور کے سرکاری ادارے، بار کونسلز، لیگل سوسائٹیز اور حتیٰ کہ عدالتوں میں بھی اس مسئلے پر کوئی ٹھوس پالیسی نظر نہیں آتی۔
کیا حکومت کو علم نہیں کہ صوبے بھر کی خواتین وکلاء، ٹیچرز، نرسز، بینک اہلکار، اور دیگر پروفیشنلز ایک جیسے کام کرنے کے باوجود تنخواہوں میں تفریق کا شکار ہیں؟ کیا یہ ریاست کی ذمہ داری نہیں کہ وہ مساوی حق کا تحفظ کرے؟ اگر آئین پاکستان کے آرٹیکل 25 کے تحت مرد و عورت برابر ہیں، تو پھر تنخواہوں میں یہ فرق کیوں؟
اور یہ صرف معاشی مسئلہ نہیں، یہ عزتِ نفس، اعتماد، اور سماجی برابری کا مسئلہ ہے۔
اکثر خواتین روزانہ 8 سے 10 گھنٹے دفاتر، عدالتوں یا دیگر اداروں میں گزارتی ہیں۔ وہی ٹارگٹس، وہی ڈیڈلائنز، وہی دباؤ، وہی نتائج۔ بعض اوقات وہ مردوں سے زیادہ بہتر نتائج دیتی ہیں، لیکن ان کی تنخواہ اب بھی 20 سے 30 فیصد کم ہوتی ہے صرف اس بنیاد پر کہ وہ عورت ہیں۔ یہ فرق تنخواہ کے چیک میں نہیں، یہ فرق سوچ میں ہے، اور اسی سوچ کو ہمیں بدلنا ہوگا۔
پشاور حکومت اس وقت کہاں ہے؟ کہاں ہیں وہ کمیشنز، وہ لیبر ڈپارٹمنٹ، وہ عورتوں کے حقوق کے دفاتر جو سرکاری پیسے پر چلتے ہیں؟ کیا کسی نے تنخواہ میں صنفی امتیاز پر تحقیقات کیں؟ کیا کوئی پالیسی بنائی گئی؟ کیا کسی لا فرم، سرکاری محکمے یا ادارے سے جواب طلب کیا گیا؟ نہیں۔
بلکہ اگر کوئی عورت آواز اٹھائے، تو اُسے خاموش کروا دیا جاتا ہے۔ اُسے بتایا جاتا ہے کہ "خاموش رہو ورنہ نوکری خطرے میں پڑ جائے گی” یا "یہی تو معاشرے کی روایت ہے، بدلنے کی ضد کیوں کرتی ہو؟”
مگر ہم چپ نہیں رہیں گی۔
ہمیں اس سسٹم کو بدلنا ہے۔ ہمیں اپنے اداروں کو، اپنی بار ایسوسی ایشنز کو، اپنے نمائندوں کو جوابدہ بنانا ہے۔ ہمیں پشاور ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کرنی چاہیے۔ ہمیں عوامی سطح پر دستخطی مہم چلانی چاہیے۔ ہمیں خواتین کی نمائندہ تنظیموں کو متحرک کرنا ہوگا، جو اس مسئلے کو صرف تقریری مقابلے یا خواتین ڈے کے نعرے تک محدود نہ رکھیں بلکہ عملاً کوئی تبدیلی لائیں۔
ایک سوال جو ہر عورت کے دل و زبان پر ہوتا ہے کہ ‘ہم کیا کر سکتی ہیں؟’
1. مساوی تنخواہ کے حق میں آئینی درخواستیں دائر کی جا سکتی ہیں۔
2. خواتین وکلاء، ماہرین قانون، اور انسانی حقوق کی تنظیمیں مل کر حکومت کو پالیسی فریم ورک فراہم کریں۔
3. ہیش ٹیگز، ویڈیوز، ریئل اسٹوریز، اور کمپینز کے ذریعے عوامی شعور بیدار کرنے کی کوشش پر عمل درآمد کرنا ۔
4. خواتین ملازمین کو چاہیے کہ وہ انفرادی احتجاج کے بجائے اجتماعی موقف اپنائیں۔
5. میڈیا کو ساتھ ملائیں مقامی اخبارات، ٹی وی، اور ریڈیو چینلز پر ان موضوعات پر رپورٹس اور گفتگو شروع کروائی جائے۔
یاد رکھیں، مسئلہ صرف تنخواہ کا نہیں یہ ان تمام لڑکیوں کا مستقبل ہے جو تعلیم حاصل کر کے خود کو اس نظام کا حصہ بناتی ہیں، مگر بدلے میں ان سے انصاف نہیں کیا جاتا۔
جب تک ہم خود آگے نہیں بڑھیں گے، نہ پشاور کی حکومت، نہ عدالت، نہ کوئی ادارہ یہ قدم اٹھائے گا۔
یہ وقت ہے کہ ہم خاموش تماشائی بننے کے بجائے اپنی آواز بنیں۔