سنگھم مووی؛ راؤ انوار، اور ماورائے عدالت قتل کی خطرناک روایت
اگر 'لوجیکلی' اور شرعی لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ ماورائے عدالت قتل ایک خطرناک روایت کا پیش خیمہ بن سکتا ہے کیونکہ سزا کا اختیار نہ عوام کو ہے نہ پولیس کو!

انڈین مووی، سنگھم، میں کسی قصبے کی پولیس اپنے کرپٹ عدالتی سسٹم کی وجہ سے مجرموں کے باعزت بری ہونے پر پریشان ہو کر خود ہی انہیں سزا دینے کا فیصلہ کرتی ہے اور حوالات میں موجود ملزم پراسرار وجوہات کی بناء پر مرنے لگتے ہیں۔
یہ فلم سچے واقعات پر بیسڈ تھی۔ شاید اسی فلم سے متاثر ہو کر ہماری پولیس نے بھی سوچا کہ ہمارا عدالتی نظام تو اس قابل نہیں کہ مجرموں خصوصاً ریپسٹس کو سزا دے۔ چنانچہ گذشتہ کچھ سالوں میں ہم کئی ریپسٹس کو پولیس کی حراست سے فرار کے دوران اِن کاوئنٹر میں مرنے کی خبریں دیکھ چکے ہیں۔ سچ کہوں تو میں اس عمل کے حق میں ہوں لیکن اگر ‘لوجیکلی’ اور شرعی لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ ماورائے عدالت قتل ایک خطرناک روایت کا پیش خیمہ بن سکتا ہے کیونکہ سزا کا اختیار نہ عوام کو ہے نہ پولیس کو!
2019 میں مظفر گڑھ میں سجاد نامی ملزم 8 سالہ بچی کے ریپ اور قتل کے الزام میں پکڑا گیا اور پولیس مقابلے میں مارا گیا لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ اس کے خلاف گواہیاں اور ثبوت کمزور تھے، شاید وہ مجرم نہیں تھا۔
2020 میں موٹر وے پر زیادتی کیس کے ملزم شفاعت کو بھی ایسے ہی مارا گیا؛ بعد میں کئی رپورٹس میں تضاد سامنے آیا کہ آیا یہ واقعی ان کاؤنٹر تھا یا باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت قتل۔
2018 میں زینب کیس کے مجرم عمران کو سزائے موت ملی مگر اس کے بعد کئی ایسے ملزمان کو قصور کے مختلف علاقوں میں ان کاؤنٹر میں مارا گیا جن کا جرم بعد میں ثابت نہ ہو سکا۔
یہ بھی پڑھیں: پشاور: بیٹی نے سگے باپ کو قتل کر ڈالا، وجہ کیا تھی؟
اگر کسی کو صرف الزام کی بنیاد پر مار دیا جائے تو عین ممکن ہے کہ اصل مجرم بچ جائے اور بے گناہ مارا جائے؛ عدالتی نظام مزید کمزور ہو گا، پولیس کو قتل کا لائسنس مل جائے گا اور معاشرہ قانون کے بجائے ہجوم کے انصاف پر اعتماد کرنے لگ جائے گا اس لیے انصاف کا راستہ صرف عدالت ہے۔
اسلامی اور جمہوری اصول بھی یہی کہتے ہیں کہ انصاف صرف عدالت کے ذریعے ہونا چاہیے چاہے کوئی کتنا ہی بڑا مجرم ہو؛ قاتل ہو یا توہین رسالت کا مرتکب ہوا ہو، اسے اس وقت تک سزا نہیں دی جا سکتی جب تک ٹھوس گواہیاں، شفاف ٹرائل، اور منصفانہ عدالتی کارروائی نہ ہو۔ ماورائے عدالت قتل جسے عرفِ عام میں پولیس اِن کاؤنٹر کہا جاتا ہے، یہ نہ صرف آئین پاکستان کے خلاف ہے بلکہ شرعی اصولوں سے بھی متصادم ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اِن کاؤنٹرز میں مارے جانے والے زیادہ تر افراد کا تعلق غریب، پسماندہ اور نچلے طبقے سے ہوتا ہے؛ وہ جو کسی وکیل کی خدمات لینے کی استطاعت رکھتے ہیں نہ ہی کوئی میڈیا پر ان کا مؤقف پیش کرتا ہے۔ دوسری طرف، اگر کوئی بااثر شخص کسی زیادتی یا قتل میں ملوث پایا جائے تو یا تو وہ ناکافی شہادت کی بنیاد پر چھوٹ جاتا ہے یا اسے بیرون ملک فرار کروا دیا جاتا ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ 2012 میں شاہ زیب نامی نوجوان کے قاتل شاہ رخ جتوئی کو عدالت نے سزا سنائی مگر وہ دیت دے کر چھوٹ گیا۔ اگر یہی جرم کسی غریب نے کیا ہوتا تو کیا وہ بھی عدالت سے بچ نکلتا؟
2021 میں پشاور کے ایک بااثر شخص نے زیادتی کے بعد خواجہ سرا کو زندہ جلا دیا۔ کیس عدالت گیا مگر گواہوں پر دباؤ، پولیس کی نااہلی اور سست روی کی وجہ سے ملزم باعزت بری ہو گیا۔ کوئی اِن کاؤنٹر یہاں کیوں نہیں ہوا؟ صرف اس لیے کہ وہ بااثر تھا۔
2017 میں سابق ایم پی اے عبد المجید اچکزئی نے دن دیہاڑے جی پی او چوک پر ٹریفک وارڈن کو کچل کر مار دیا؛ سی سی ٹی وی فوٹیج نے سارا واقعہ ریکارڈ کیا، کئی لوگ اس کے چشم دید گواہ تھے پھر بھی پولیس نے ابتدائی طور پر نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ لیکن بعد ازاں فوٹیج وائرل ہونے پر عبدالمجید اچکزئی کو گرفتار کیا گیا مگر ماڈل کورٹ نے ناکافی ثبوتوں کی بنا پر مجرم کو بری کر دیا۔
بصد احترام، ہمارا عدالتی نظام بدقسمتی سے اس قدر کرپٹ ہو چکا ہے کہ انصاف دولت، اثر و رسوخ اور طاقت کے تابع بن گیا ہے۔ امیر مجرم مہنگے وکیل، اثرورسوخ اور سیاسی تعلقات کے ذریعے قانون کو موم کی ناک بنا لیتا ہے جب کہ غریب محض الزام کی بنیاد پر سالوں جیل کی سلاخوں کے پیچھے سڑتا رہتا ہے اور بعض کیسیز میں تو مر بھی جاتا ہے۔ عدالتیں انصاف کی فراہمی کے بجائے امتیازی سلوک کا مرکز بن گئی ہیں جہاں قانون سب کے لیے برابر نہیں رہا۔ یہ صورتحال نہ صرف عوام کے عدلیہ پر اعتماد کو مجروح کرتی ہے بلکہ ایک منصفانہ معاشرے کی بنیادوں کو بھی ہلا کر رکھ دیتی ہے۔
پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 10-A ہر شہری کو فیئر ٹرائل کا حق دیتا ہے۔ اگر عدالتیں ناکام ہو رہی ہیں تو ان کا متبادل قتل نہیں بلکہ اصلاح ہے۔ ہمیں اپنے عدالتی نظام کو مضبوط بنانا ہو گا: جدید فرانزک لیبارٹریز قائم کی جائیں؛ گواہان کو تحفظ دیا جائے، یہ یقینی بنایا جائے کہ گواہیاں سچ اور انصاف پر مبنی ہوں، اور پولیس نظام کو ‘ڈی پولیٹیسائز’ کیا جائے تاکہ ایس ایس پی ملیر انور راو جیسے کردار جنم نہ لیں۔
اسی طرح تفتیشی افسران کی تربیت بہتر کی جائے؛ فاسٹ ٹریک کورٹس بنائی جائیں جو کیسز کا جلد فیصلہ کریں، قانون سازی بہتر کی جائے، عدالتی نظام کو مؤثر اور فوری بنایا جائے تاکہ معمولی کیسیز کے لیے بھی لوگوں کو کئی عشروں تک عدالتوں میں خوار نہ ہونا پڑے، پولیس اور عدلیہ کو آزاد اور بااختیار بنایا جائے تاکہ کوئی بااثر شخص دباو یا سفارش کے ذریعے نہ بچ پائے، اور عوام میں قانون کی اہمیت اجاگر کی جائے۔
دوسری صورت میں یہ ملک ایک جنگل بن جائے گا جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا حساب ہو گا۔انصاف کی بجائے بدلے کا قانون چلے گا، نتیجتاً مشعال خان، آسیہ بی بی جیسے حادثات جنم لیتے رہیں گے، اور لوگ ذاتی دشمنی اور انتقام کے لیے معصوم لوگوں پر الزام لگا کر ماورائے عدالت قتل کرتے رہیں گے۔