بلاگزعوام کی آواز

تنہائی، لاتعلقی اور معاشرتی بے حسی: حمیرہ اصغر کی زندگی پر سوالیہ نشان

ایزل خان

حمیرہ اصغر علی 10 اکتوبر 1992ء کو لاہور، پاکستان میں پیدا ہوئیں۔ وہ ایک فوجی ڈاکٹر کی بیٹی تھی،ابتدائی اور ثانوی تعلیم انہوں نے اپنے مقامی اسکول سے حاصل کی۔ اس کے بعد حمیرا اصغر نے نیشنل کالج آف آرٹس اور جامعہ پنجاب کے کالج آف آرٹ اینڈ ڈیزائن سے مصوری اور مجسمہ سازی کی تعلیم حاصل کی۔

حمیرا اصغر نے اپنی فنی کرئیر کا آغاز کالج کے زمانے میں رفیع پیر تھیٹر سے کیا تھا جس کے بعد انہوں نے ماڈلنگ میں قدم رکھا اور ماڈلنگ کے بعد ٹیلی ویژن اور فلموں کا رخ کیا، حمیرا اصغر نے مختلف ٹیوی ڈراموں اور فلموں میں کام کیا ہے پھر 2022 میں سے آر وائی ڈیجیٹل رئیلٹی شو٫٫ تماشا گھر کے پہلے سیزن میں شرکت کی تھی۔ جس کے وجہ سے حمیرا اصغر کو بہت شہرت ملی اور ان کے سوشل میڈیا فالورز بہت زیادہ ہوگئے۔

ٹیلی ویژن میں انہوں نے مختلف ڈراموں میں بہترین کردار ادا کیا ہے، ”جسٹ میریڈ“، ”لو ویکسین“، ”چل دل میرے“، ”صراط مستقیم مستقیم“ (لالی)، ”احسان فراموش“ اور ”گرو“ جیسے سیریلز میں کام کیا، اس کے علاؤہ حمیرا اصغر نے مختلف فلموں، برانڈز اور میگزین کے لئے کام کر چکی ہے۔

گزشتہ روز سوشل میڈیا پر ایک ایسی خبر وائرل ہوئی جس نے سب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اطلاع ملی کہ اداکارہ حمیرہ اصغر کی لاش ڈیفنس فیز 6 اتحاد کمرشل میں واقع فلیٹ سے ملی ہے۔ واقعہ اس وقت سامنے آیا جب عدالتی حکم پر کرایہ کی عدم ادائیگی کے باعث فلیٹ کا دروازہ توڑا گیا۔ ڈی آئی جی ساوتھ اسد رضا میر کے مطابق اداکارہ کا آخری رابطہ مالک مکان سے 2024 میں ہوا تھا، اور فلیٹ کی بجلی کئی ماہ سے منقطع تھی۔

سوشل میڈیا پر مختلف آرا سامنے آئیں، کسی نے کہا دو ہفتے پرانی لاش ہے، کسی نے ایک ماہ کی، مگر صحافی اقرار الحسن نے دعویٰ کیا کہ لاش نو ماہ پرانی تھی۔ سوال یہ ہے کہ ایک انسان نو ماہ سے غائب ہو اور کسی کو اس کی خبر نہ ہو، یہ کیسے ممکن ہے؟ دوست، احباب، پڑوسی، حتیٰ کہ انڈسٹری کا کوئی فرد بھی کچھ نہ سمجھے؟ اگر مالک مکان عدالت نہ جاتا تو پتہ نہیں یہ لاش کب تک یونہی بے خبر پڑی رہتی۔

دوست، احباب، پڑوسیوں، انڈسٹری کے لوگوں کو اور سوشل میڈیا پوسٹس نظر نہیں آرہا؟ پھر بھی ہر کوئی خاموش کیوں؟ اگر آج بھی مالک مکان کے کرایے کا مسئلہ نا ہوتا پتہ نہیں کب تک ایسی طرح خاموش موت ہوتی؟

سوائے فیشن میگزین کے ایڈیٹر دانش مقصود احمد کے، جنہوں نے بتایا کہ حمیرہ سات اکتوبر 2024 سے لاپتا تھیں اور انہوں نے متعدد بار بڑے اشاعتی اداروں سے اس پر بات کرنے کی کوشش کی، مگر کوئی توجہ نہ دی گئی۔ فروری 2025 میں بھی انھوں نے گمشدگی کی خبر شائع کرنے کی اپیل کی تھی، جو سنی ان سنی کر دی گئی۔

پولیس ذرائع کے مطابق جب حمیرہ کے موبائل سے ان کے والدین کو کال کی گئی، تو والد نے لاش وصول کرنے سے انکار کر دیا، یہ کہہ کر کہ ہم دو سال پہلے لاتعلقی اختیار کر چکے ہیں۔ یہ بات دل دہلا دینے والی ہے۔ کیسے کوئی ماں باپ اپنی بیٹی کو یوں بے نام چھوڑ سکتے ہیں؟ آخر ایسی کیا غلطی سرزد ہوئی تھی کہ دل پتھر ہو گئے؟

میں بلکل حیران ہو قسم خدا کی، مجھ کچھ سمجھ نہیں آتی، کیا لکھوں اور کیسے اس درد بھری حالات کو اپنی قلم کا حصہ بناؤ، ایک وقت وہ بھی آیا جب اداکارہ عائشہ خان کی موت پر ان کے بچے جنازے میں شامل نہ ہوئے، اب حمیرہ کی لاش تک لینے کوئی تیار نہیں۔ آخر کیوں؟ کیا یہ تربیت کی کمی ہے؟ یا ہم اپنے انا کے بتوں میں اس قدر گم ہو چکے ہیں کہ تعلق نبھانا جرم لگنے لگا ہے؟ والدین اگر بچوں کو صرف اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے پر مجبور کریں گے، تو نتیجہ تنہائی اور خاموشی کے سوا کچھ نہ ہو گا۔

کیا ہمیں اندازہ ہے کہ حمیرہ ہر دن ایک نئی موت مر رہی تھی؟ وہ خود سے نہیں مری، اسے حالات، طعنے، تنہائی اور تھکن نے مارا۔ وہ ہر دن جینے کی کوشش کرتی رہی، شاید صلح کرنا چاہتی تھی، شاید معاف کرنا، شاید معافی مانگنا، لیکن کوئی نہ آیا۔

لوگ کہتے ہیں کہ اداکاروں، انفلوئنسرز یا ٹک ٹاکرز کی زندگیاں خوشحال ہوتی ہیں، مگر وہ نہیں جانتے کہ ان میں سے اکثر اندر سے کتنے خالی، کتنے تنہا ہوتے ہیں۔ حمیرہ کے انسٹاگرام پر سات لاکھ سے زائد فالوورز تھے، مگر اصل زندگی میں وہ کئی برسوں سے ایک کمرے تک محدود تھی۔

کیا ہم واقعی اتنے مصروف ہو گئے ہیں کہ اپنے قریبی لوگوں کی موت کی خبر بھی عدالتی نوٹس کے ذریعے سننے پر مجبور ہیں؟ یہ سماج کا المیہ ہے۔ ہمارے اردگرد نہ جانے کتنے لوگ خاموشی سے تکلیفیں جھیل رہے ہیں، مگر ہم صرف اس وقت جاگتے ہیں جب کوئی مر جاتا ہے۔

ہم کیوں اتنا خود غرض ہو چکے ہے کے جیتا جاگتا انسان ہمارے معاشرے کا حصہ سب سے ملنے جلنے والا فرد یکدم مہینوں تک خاموش ہو جاتے ہے ہمیں ایک فون کال کرنے کا وقت نہیں؟ یہاں بات صرف ایک عائشہ خان یا حمیرا اصغر کی نہیں ہمارے معاشرے میں کئی ایسے عام لوگ ہے جو ان سب حالتوں لڑ کر چلے گئے ہے، کسی کو پتہ تک نہیں۔

معاشرتی اخلاقیات کی پامالی اور رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ نے ہمیں اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ آج ہمیں حمیرا اصغر جیسے واقعات دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ خدا را! ہوش کے ناخن لیں، انسانیت کو اپنائیں، اپنے قریبی لوگوں سے جڑے رہیں، ان سے رابطہ رکھیں، ان کے درد کو محسوس کریں۔

اللہ حمیرا اصغر کی مغفرت فرمائے، ان کی تنہائیوں کو معاف کرے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ آمین۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button