بلاگزعوام کی آواز

پاکستانی ڈرامے آزادی کا درس دے رہے ہیں یا بربادی کا؟

حمیرا علیم

نوے کی دہائی تک پاکستانی ڈرامے ہمارے معاشرتی رویوں اور اقدار کی عکاسی کرتے تھے۔ ان کی کہانیاں ہمیں اپنے گھروں کی کہانیاں لگتی تھیں۔ یہ ڈرامے اخلاقی و خاندانی اقدار، بزرگوں کا احترام، قربانی، صبر، حیا پر مبنی اور سبق آموز ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پڑوسی ممالک میں ہمارے ڈرامے شوق سے دیکھے جاتے تھے۔

لیکن پچھلی دو دہائیوں سے ہمارے ٹی وی چینلز پیسے اور ریٹینگ کی دوڑ میں حرام حلال کی تمیز بھول جانے، بغاوت، خودسری، بے راہروی کو آزادی اورخودمختاری کے نام پر پروموٹ کر رہے ہیں۔”میرا جسم میری مرضی” جیسے نعرے اور ان پر مبنی مواد، بوائے فرینڈ / گرل فرینڈ کلچر، ہم جنس پرستی  دراصل مغربی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں جو ہمارے مذہب اور معاشرے سے متصادم ہیں ۔

اے آر وائے کے اکثر ڈرامے مختلف اور اچھے موضوعات پر مبنی ہوتے ہیں۔ لیکن بعض اوقات ان سب کے ساتھ ہی ایک ایسا ڈرامہ بھی پیش کر دیا جاتا ہے جو بڑے ہی غیر محسوس طریقے سے حرام کو حلال  اور نہایت پرکشش بنا کر دکھاتا ہے۔ یوں معاشرے میں اس حرام کے حق میں راہ ہموار کرتا ہے خصوصا نوجوان نسل اس سے متاثر ہوتی ہے کیونکہ اکثر دین سے لاعلم ہوتی ہے۔

حال ہی میں ڈرامہ’ پرورش’ کی چند اقساط میں یہی سب کچھ دیکھا گیا ہے۔ یہ ڈرامہ ایک فیملی کی کہانی پرمبنی ہے جس میں دو بھائی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ والدین کےگھر میں مقیم ہیں۔ ایک بھائی کے بچے سلجھے ہوئے جب کہ دوسرے کے بچے بیرون ملک مقیم رہنے کی وجہ سے خودسر، ضدی اور لوز کیریکٹر کے ہیں۔ وجہ ان کے والد کی سختی، جو کہ درحقیقت انہیں زمانے کے سرد گرم سے بچانے کی کوشش ہے، دکھائی گئی ہے۔

ہیرو ایک بگڑا ہوا امیر زادہ، اس کی بہن ڈرگ ایڈیکٹ سائیکو ہے۔ جب والد کو ان کے ہاتھ سے نکلنے کا خدشہ ہوتا ہے تو وہ انہیں پاکستان لے آتے ہیں۔ جہاں ہیرو کالج میں ایک لڑکی کے عشق میں مبتلا ہو جاتا ہے کیونکہ اس کا اپنی امریکن گرل فرینڈ سے بریک اپ ہو جاتا ہے اور جب اس کی وجہ سے ہیروئین کی منگنی ٹوٹنے پر اس کے والد ہیرو کی فیملی سے کہتے ہیں کہ وہ اپنے بیٹے کی شادی ان کی بیٹی سے کر دیں۔ تو ہیرو جو میڈیکل فرسٹ ائیر کا اسٹوڈنٹ ہے فورا راضی ہو جاتا ہے۔

والدین کے سمجھانے ہر کہ وہ بیوی کی ذمہ داریاں پوری نہیں کر سکتا کیونکہ ابھی وہ خود کسی قابل نہیں۔ ہیرو صاحب یہ ثابت کرنے کے لیے کہ وہ والدین پر ڈیپنڈنٹ نہیں  بلکہ اپنے بل بوتے پر نہ صرف کما سکتے ہیں بلکہ والدین کی فراہم کردہ زندگی سے بہتر زندگی گزار سکتے ہیں، لڑ جھگڑ کر گھر چھوڑ جاتے ہیں۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ اسی دوران انہیں ایک فرشتہ صفت انسان مل جاتا ہے جو انہیں گھر، جاب اور کھانا پینا سب فراہم کرتا ہے۔

حالانکہ حقیقت میں گھر چھوڑنے والے بچے عموماً یا تو جنسی استحصال، ہیومن ٹریفکنگ، آرگن ٹریفکنگ یا بھکاری مافیا کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سڑک پر نکلنے والے ہر بچے کو نہ تو محبت ملتی ہے، نہ ہی تحفظ، بلکہ اکثر اوقات ان کا انجام موت یا ذہنی و جسمانی بربادی ہوتا ہے۔

ایسے مناظر نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ وہ والدین کی اجازت کے بغیر بھی اپنی زندگی کے فیصلے خود کر سکتے ہیں، وہ چاہیں تو گھر چھوڑ سکتے ہیں، اور محبت کرنے والا شخص ہر حال میں ان کا ساتھ دے گا۔ یہ سب کچھ اتنی آسانی سے دکھا کر نوجوان ذہنوں میں یہ بات بٹھائی جا رہی ہے کہ گھر چھوڑنا کوئی بڑا مسئلہ نہیں، بلکہ ایک "حل” ہے۔ یہ سوچ نہ صرف غیر حقیقی ہے بلکہ خطرناک حد تک گمراہ کن بھی ہے۔

ہیروئین ایک ٹیپیکل مڈل کلاس گھرانے کی لڑکی ہے جس کے والد بیٹیوں کی عزت کو نازک آبگینہ سمجھتے ہیں اور کسی مسئلے سے بچنے کے لیے اچھا رشتہ دیکھ کر بیٹی کی منگنی کر دیتے ہیں۔ ہیروئین کو اپنے منگیتر سے اشد نفرت ہے جب کہ ہیرو سے شدید محبت۔ منگیتر کے ساتھ کہیں جانا، فون پر بات کرنا، اس کا چھونا اسے سخت ناگوار ہے جب کہ بوائے فرینڈ سے ملنے وہ پارکس میں، اکیلی شہر کے دوسرے سرے پر چلی جاتی ہے جہاں جا کر وہ تنہائی میں اس کے ہاتھ پکڑ لیتی ہے، بالوں میں ہاتھ پھیر کر اسے تسلی دیتی ہے۔ ایسے ساتھ بیٹھتی ہے جیسے وہ میاں بیوی ہوں اور ‘ پاکیزہ محبت’ کی وجہ سے کوئی غلط سوچ ان کے ذہنوں میں آتی ہی نہیں ۔

شام میں گھر لیٹ آتی ہے تو ماں اسے سپورٹ کرتی ہے۔ جبکہ یہی ماں اس کے منگیتر کے چھونے پر ہیروئین کے والد سے جھگڑا کرتی ہے۔یہ منظرنامہ نہ صرف غیر حقیقی ہے بلکہ ایک خطرناک پیغام بھی دے رہا ہے: "محبت کے نام پر سب کچھ جائز ہے۔”

مانا کہ والدین کی سختی بعض اوقات بے جا بھی ہوتی ہے۔منگیتر بھی نا محرم ہوتا ہے۔لیکن اس سب کو ہائی لائٹ کر کے بدکرداری، بوائے فرینڈ / گرل فرینڈ رکھنا،  والدین کے اچھا برا سمجھانے ،ان کی اپنے تجربے کی بنا پر نصیحت کو یکسر غلط قرار دینے، والدین کی جائز سختی پر گھر چھوڑنے کو بالکل درست قرار دیا گیا ہے۔

اس قسم کے منفی بیانیے دراصل ہماری نئی نسل کو خاندانی نظام اور اسلام سے بدظن کرنے کی ایک خاموش مگر مؤثر سازش کا حصہ ہیں۔ "میرا جسم میری مرضی” کا مطلب اگر آزادی ہے تو یہ آزادی حدود و قیود کے ساتھ ہونی چاہیئے نہ کہ بے لگامی کے ساتھ۔ اسلامی معاشرت میں مرد اور عورت دونوں کے لیے حیا، اطاعت والدین، اور اجتماعی فلاح کے اصول واضح طور پر موجود ہیں۔ ان اصولوں کو پس پشت ڈال کر انفرادی خواہشات کو مقدم کرنا ایک ایسا طرز عمل ہے جو صرف شخصی سطح پر نہیں، بلکہ معاشرتی سطح پر بھی انتشار پیدا کرتا ہے۔

مزید برآں، ان ڈراموں میں مثبت کردار بھی کمزور دکھائے جاتے ہیں۔ اور اکثر انہیں ظالم، تشدد پسند پورٹرے کیا جاتا ہے۔حالانکہ وہ عین اسلام کے مطابق طرز عمل اختیار کئے ہوتے ہیں۔ ہمارے مصنفین، پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز کو نوجوانوں میں مثبت سوچ پیدا کرنے کے لیے اچھا کونٹینٹ پیش کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ منفی سوچ اور رویے کو پروان چڑھانے کی کیونکہ آج کا نوجوان پہلے ہی خودساختہ مسائل میں گھر کر خودکشی کو آسان حل سمجھ بیٹھا ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button