سیلاب کی روک تھام اور رہنمائی: صرف افسوس نہیں، عمل بھی ضروری ہے

رعناز
آجکل پری مون سون بارشوں اور موسمیاتی تیبدیلی کی وجہ سے موسم کی بڑھتی ہوئی شدت بہت سی قدرتی آفات کا سبب بن رہی ہیں۔ ابھی حال ہی میں سانحہ سوات ایک دل دہلا دینے والا لمحہ تھا، جس نے ہمیں ایک بار پھر یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کیا ہم بطور قوم قدرتی آفات سے سبق سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟
گزشتہ روز ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے حکومت پاکستان اور دوسرے اداروں کے ساتھ مل کر ایک اہم منصوبہ بنایا ہے، تاکہ ممکنہ سیلاب سے پہلے 13 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو طبی امداد دی جا سکے۔ اس منصوبے کو "مون سون ایمرجنسی پلان 2025” کا نام دیا گیا ہے۔
رواں سال جون کے آغاز میں ہونے والی طوفانی بارشوں اور اچانک آنے والے شدید سیلاب نے سوات کے کئی علاقے صفحہ ہستی سے مٹا دیئے۔ کالام، مٹہ، مدین اور بحرین جیسے علاقوں میں ہوٹل، مکانات، پل، سڑکیں اور کھڑی فصلیں سیلابی ریلوں کی نذر ہو گئیں۔ درجنوں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، سیکڑوں خاندان بے گھر اور ہزاروں لوگ بے یار و مددگار ہو گئے۔
میڈیا اور سوشل میڈیا پر ایک بار پھر تصاویر، ویڈیوز، اور درد بھرے تبصرے دیکھنے کو ملے۔ ہر کوئی ماتم کرتا دکھائی دیا، اور حکومت کو کوستا رہا، مگر ایک بار پھر وہی کمی محسوس کی گئی جو ہر سال ہوتی ہے: سیلاب سے بچاؤ کی مؤثر منصوبہ بندی اور عوامی رہنمائی پر بات نہ ہونا۔آخر کب تک ہم صرف تباہی کے بعد جاگیں گے؟ کیا ہمیں ایک اور سانحہ درکار ہے شعور کی آنکھ کھولنے کے لیے؟
سیلاب کے بنیادی اسباب
سوات سیلاب قدرتی آفت ضرور تھا، مگر اس کے پیچھے کئی انسانی غفلتیں چھپی تھیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث بارش کی شدت معمول سے کئی گنا زیادہ تھی۔ پہاڑی علاقوں میں جنگلات کا خاتمہ زمین کی گرفت کمزور کر چکا ہے۔کالام اور بحرین میں کئی ہوٹل دریا کے بیچ یا بالکل کنارے تعمیر کئے گئے تھے، جو لمحوں میں بہہ گئے۔ بیشتر لوگوں کو سیلاب آنے سے پہلے خبردار نہیں کیا گیا، اور جب وارننگ آئی، تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔
روک تھام اور عملی رہنمائی، کچھ مؤثر اقدامات
اگر ہم واقعی آئندہ ایسے سانحات سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں جذباتی ردعمل سے ہٹ کر عملی اقدامات پر توجہ دینا ہوگی۔ جو کہ انتہائی ضروری ہے۔
محکمہ موسمیات کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کرنا ہوگا تاکہ بر وقت، درست اور عوام تک فوری رسائی والا وارننگ سسٹم فعال ہو۔ موبائل، ریڈیو، مقامی اعلانات، اور سوشل میڈیا کے ذریعے خبردار کرنا ضروری ہے۔ دریاؤں کے کنارے، ندی نالوں کے قریب، یا لینڈ سلائیڈنگ کے خدشے والے علاقوں میں تعمیرات پر نہ صرف پابندی ہونی چاہیئے بلکہ موجودہ غیر قانونی تعمیرات کو مسمار کر کے نشان عبرت بنایا جائے۔ شہروں اور دیہاتوں میں سیلابی پانی کو نکالنے کے لیے محفوظ راستے اور نالوں کی صفائی وقتاً فوقتاً ہونا چاہیئے۔ ہر سال مون سون سے پہلے خصوصی صفائی مہم شروع کی جائے۔
ہمیں لوگوں کو ان باتوں سے آگاہ کرنا چاہیئے کہ
- سیلاب آنے کی صورت میں کہاں جانا ہے۔
- کیا سامان ساتھ لے کر جانا ہے۔
- بزرگوں، بچوں اور بیماروں کو کیسے بچانا ہے۔
- ابتدائی طبی امداد کیسے دینی ہے۔
ہر محلہ، گاؤں یا قصبہ اپنے ریسکیو رضا کار تیار کرنے چاہیئے، جنہیں حکومت تربیت دے۔ یہ افراد ہنگامی حالات میں قیمتی وقت بچا سکتے ہیں۔ شجر کاری، پہاڑوں کی بحالی، دریاؤں کے قدرتی راستوں کو بحال کرنا، اور زمین کو کنکریٹ سے بھرنے کے بجائے سبز علاقوں کی بحالی اس بحران کا طویل مدتی حل ہے۔
سوات کا سانحہ ہمیں یہ سمجھانے کے لیے کافی ہے کہ محض امدادی کارروائیاں کافی نہیں۔ ہمیں سیلاب سے پہلے کی پلاننگ پر سرمایہ لگانا ہوگا۔حکومت قانون سازی کرے، بجٹ مختص کرے، اور ذمہ دار اداروں کی کارکردگی مانیٹر کرنے کی ضرورت ہے۔ہم عوام کو اپنی ذمہ داری نبھانی چا ہیے، غیر قانونی اقدامات کی مخالفت کرنے اور ماحول دوست طرز زندگی اپنانے کی ضرورت ہے۔
سانحہ سوات 2025 ہمیں صرف رلانے کے لیے نہیں، جگانے کے لیے آیا ہے۔ اگر ہم نے اب بھی اپنی پالیسیوں، ترجیحات، اور طرز زندگی میں تبدیلی نہ کی تو آنے والے سالوں میں یہ سانحات معمول بن جائیں گے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم صرف تصویریں نہ شیئر کریں، بلکہ سیلاب سے بچاؤ کی حکمت عملی پر آواز بلند کریں، حکومت سے مطالبہ کریں، اور خود بھی عملی طور پر تیار ہوں۔آفت کبھی اطلاع دے کر نہیں آتی، مگر اس سے بچاؤ کی تیاری ہر وقت ممکن ہے۔ بشرطیکہ ہم سنجیدہ ہوں۔