بلاگزصحتعوام کی آواز

کیا ہم پولیو کے خلاف جنگ ہار رہے ہیں؟

صدف سید

خیبر پختونخوا کے پہاڑوں اور وادیوں میں بسا ہوا ایک ایسا گاؤں جہاں بچوں کی ہنسی، مسجد کی اذان، دور بازاروں کی آوازیں اور درختوں کی سرسراہٹ ایک دوسرے میں گھلی ہوتی ہیں۔ یہاں زندگی سادہ بھی ہے اور کٹھن بھی، امیدیں بھی جاگتی ہیں اور مایوسیوں کے سائے بھی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ لیکن ان دنوں اس بستی پر ایک اور سائے نے ڈیرے ڈال دیے ہیں، ایک پرانا دشمن جسے ہم نے سمجھا تھا کہ شاید اب پرانا قصہ بن چکا ہے پولیو واپس لوٹ آیا ہے۔

جون 2025 کی ایک صبح، جب سورج اپنی پوری آب و تاب سے نکلا تو ایک خبر نے پورے علاقے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ خیبر پختونخوا میں 18 ماہ کے معصوم بچے میں پولیو کی تصدیق ہوئی۔ یہ کوئی محض طبی خبر نہ تھی، بلکہ ایک لمحہِ فکریہ تھا، ایک آئینہ جو ہمیں ہماری اپنی کوتاہیوں اور غفلتوں کی جھلک دکھا رہا تھا۔ یہ اس سال پاکستان میں سامنے آنے والا چودہواں پولیو کیس تھا، اور یوں لگا جیسے ہم تاریخ کے پنوں میں ایک بار پھر وہیں لوٹ آئے ہوں جہاں سے نکلنے کی برسوں کوشش کی گئی تھی۔

پولیو، جس کا خوف کبھی دنیا بھر میں چھایا ہوا تھا، اب صرف دو ممالک میں باقی ہے پاکستان اور افغانستان۔ اقوامِ عالم نے مل کر اس مرض کو ماضی کا حصہ بنا دیا، لیکن ہم، شاید اپنی کمزوریوں، غلطیوں اور ناسمجھی کی وجہ سے آج بھی اس موذی مرض کا سامنا کر رہے ہیں۔ خیبرپختونخوا کا یہ واقعہ کوئی اچانک یا غیر متوقع واقعہ نہ تھا، بلکہ برسوں کی نظرانداز کی گئی ذمہ داریوں کا نتیجہ تھا۔

اس بچے کی کہانی عام سی نہیں، بلکہ اس میں وہ سچ چھپا ہے جو کئی لوگ جانتے ہیں مگر زبان پر نہیں لاتے۔ اس کے والدین نے مکمل ویکسینیشن نہیں کروائی تھی۔ شاید وہ بھی معاشرتی غلط فہمیوں اور جھوٹے پروپیگنڈے کا شکار بن گئے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ویکسین غیر ملکی سازش ہے، کچھ اسے مذہب کے خلاف سمجھتے ہیں، اور کچھ اپنی سستی اور بے پرواہی میں معصوم جانوں کو داؤ پر لگا دیتے ہیں۔

حکومت کی کوششیں اپنی جگہ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کہیں نہ کہیں غفلت ضرور ہوئی۔ جہاں ایک طرف بہادر ہیلتھ ورکرز نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر دور دراز علاقوں میں جا کر بچوں کو قطرے پلانے کی کوشش کی، وہیں دوسری طرف حکومتی مشینری اکثر بدانتظامی، کمزور حکمت عملی اور ناقص ریکارڈ کی وجہ سے پیچھے رہ گئی۔ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ جن دروازوں پر ویکسینیٹرز کو روکا گیا، ان گھروں کی دوبارہ خبر لینے کون گیا؟ جو خاندان خانہ بدوشی کی زندگی گزارتے ہیں، جو لوگ دور پہاڑی علاقوں میں بستے ہیں، ان تک رسائی کا کوئی مستقل حل کیوں نہ نکالا گیا؟

پولیو کے خلاف جنگ صرف حکومت کی نہیں، بلکہ ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔ والدین، اساتذہ، علمائے کرام اور معاشرتی رہنما سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اگر کوئی ماں باپ اپنے بچے کو محض افواہوں کی وجہ سے ویکسین سے محروم رکھتے ہیں، تو وہ صرف اپنے گھر کا نہیں، بلکہ پوری قوم کا نقصان کر رہے ہیں۔

ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ خیبرپختونخوا ایک حساس خطہ ہے۔ یہاں افغانستان کی سرحد قریب ہے، جہاں پولیو اب بھی موجود ہے۔ ایسے میں وائرس کا آنا جانا کوئی حیرت کی بات نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم نے اپنی طرف کتنی تیاری کی؟ کیا ہم نے اپنی بستیوں، گاؤں، قصبوں اور شہروں کو محفوظ بنانے کے لیے عملی اقدامات کئے؟ یا صرف زبانی دعووں پر اکتفا کیا؟

حیرت کی بات یہ ہے کہ 2021 میں پاکستان میں صرف ایک پولیو کیس رپورٹ ہوا تھا، جس سے امید پیدا ہوئی کہ شاید ہم اس بیماری سے ہمیشہ کے لیے نجات پا لیں گے۔ لیکن پھر وہی لاپرواہی، وہی بداعتمادی، وہی سازشی نظریات، اور نتیجہ یہ کہ 2024 اور اب 2025 میں کیسز کی تعداد دوبارہ بڑھنے لگی۔ اس سال اب تک 14 بچے پولیو کا شکار ہو چکے ہیں، اور ہر ایک بچے کی معذوری ہمیں یہی سوال سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ آخر کب تک؟

یہ جنگ صرف طبی نہیں، بلکہ سماجی، فکری اور شعوری جنگ ہے۔ جب تک ہم اجتماعی طور پر یہ نہیں سمجھیں گے کہ پولیو کے قطرے محض ایک ویکسین نہیں بلکہ نسلوں کی حفاظت کا زریعہ ہیں، ہم کامیاب نہیں ہو سکتے۔ حکومت کو چاہیے کہ اپنی مہم کو محض ایک رسمی کارروائی نہ سمجھے، بلکہ ہر بچے تک پہنچنے کی سنجیدہ اور مربوط حکمت عملی اپنائے۔ والدین کو چاہیے کہ جہالت اور افواہوں کے اندھیرے سے نکل کر اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ بنائیں۔

یقین جانیے، پولیو ایک خاموش قاتل ہے۔ یہ کسی سرحد، کسی نسل، کسی مذہب کو نہیں دیکھتا۔ یہ موقع ڈھونڈتا ہے، اور جہاں کمزوری دیکھتا ہے، وار کرتا ہے۔ اگر ہم نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو یہ بیماری ہماری آئندہ نسلوں کو معذور کرنے کا سلسلہ جاری رکھے گی۔

خیبرپختونخوا کے اس معصوم بچے کی کہانی دراصل ہماری اجتماعی غفلت اور کمزوریوں کی کہانی ہے۔ مگر اب بھی وقت ہے کہ ہم سنبھل جائیں، سیکھیں، اور ایک ایسا پاکستان بنائیں جہاں کوئی بچہ معذوری کی زنجیروں میں نہ جکڑا جائے۔

یہ فیصلہ ہمارا ہے، قلم ہمارے ہاتھ میں ہے، کہ ہم اس کہانی کا انجام کیا لکھتے ہیں۔ مایوسی اور شرمندگی یا کامیابی اور فخر۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button