جہاں بیٹی کا پیدا ہونا بھی جرم ہو، وہاں ایک بیٹی نے چراغ جلایا!!!

ساجد فدا آفریدی
یہ کہانی خیبر کی وادی تیراہ کی ہے جو پشاور سے قریباً 100 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ وادی تیراہ فطری طور گھنے جنگلات، صحت افزاء پہاڑوں، سرسبز میدانوں اور قدرتی چشموں سے بھرپور ایک حسین خطہ ہے۔ اس خوبصورتی سے مالامال ہونے کے باوجود اس علاقے کے لوگ شدید زبوں حالی کا شکار ہیں۔ پچھلی کئی دہائیوں سے یہاں آپریشنوں کے علاوہ کوئی اور خبر سننے کو نہیں ملی، پتہ نہیں کب تیراہ کی فضا دوبارہ امن کی ہواؤں سے معطر ہو گی۔
اس حساس علاقے میں جہاں کئی قبیلے آباد ہیں اور جس کی آبادی لاکھوں میں ہے، جہاں کوئی یونیورسٹی ہے نا کالج البتہ سکول بھی برائے نام ہی ہیں اب یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جب لڑکوں کے سکول نہ ہونے کے برابر ہیں تو لڑکیوں کے سکولز کتنے ہوں گے؟
جہاں تعلیم ہی نہ تھی تو پورے گاؤں میں فی میل ڈاکٹر کیوں کر ہوتی؟
موسیقی کو یہاں اتنا بڑا کفر مانا جاتا ہے کہ کسی کی بیٹی کا نام "غزل” نہ تھا۔
جب تعلیمی ادارے ہی نہ ہو تو بچیوں کی تعلیم پہ بات کیسے ممکن ہوں؟ ان کی تعلیم کے حوالے سے کون فکرمند ہوں؟ یقیناً کوئی بھی نہیں! نتیجتاً یہاں آپ کو خواتین جن کو اور کئی مواقعوں پر مذہبی لوگ گھروں پہ بیٹھنے کا تلقین کرتے ہیں اور کمزوری کا طعنہ دیئے بغیر چُپ نہیں بیٹھتے اس وقت خاموش دکھائی دینگے جب گھر کے باہر کھیتی باڑی کرنا ہو، پہاڑوں سے لکڑیاں لا کر توڑنی ہوں، دور دراز سے سروں پر پانی کے بڑے برتن لانے ہو وغیرہ وغیرہ ــــــــ مگر اس سب حقائق کے باوجود جب بات عورت کی تعلیم کی آتی ہے تو ہمارے رسم و رواج آڑے آجاتے ہیں، ان کو یہ شعور قطعی نہیں کہ وہ جس بد امنی، غربت اور پسماندگی کا شکار ہیں اس کی وجہ تعلیم کی عدم موجودگی ہی ہے اور بھلا تعلیم یافتہ ماؤں کے نا ہوتے ہوئے، بچوں کو تعلیم یافتہ کیسے بنایا جا سکتا ہے؟
خیر اس طرح کے حالات میں اس علاقے کے لوگوں کی صحت کا کیا حال ہوگا وہ آپ خود ہی اندازہ لگا لیں، چونکہ میرا تعلق شعبہ صحت سے ہے اسلئے یہ واقعہ میرے علم میں آیا جو آپ کیساتھ شریک کر رہا ہوں، تاکہ آپ کو نا صرف ہمارے علاقے میں خواتین کی صحت کے متعلق اور ان کی بیماریوں کے حوالے سے بے بسی کا علم ہو بلکہ اس بے بسی سے تنگ خواتین کی پر امید مستقبل بھی آپ جان سکیں۔
یہ کہانی ہے تیراہ میں ایک ایسے گاؤں کی جہاں تعلیم کیساتھ صحت کا بھی ویسا ہی برا حال ہے، مقامی لوگوں میں صحت کے شعبے کا احساس تب شروع ہوا جب قدرت نے ان کو پے درپے زچہ بچہ کی اموات کے نہ رکنے والے سلسلے میں پھنسایا، تب لوگوں نے سر جوڑ لیا کہ زچہ بچہ کا معاملہ اس قدر حساس اور زمہ دارانہ نوعیت کا ہے کہ یہ دور دراز کے شہروں میں جا کر حل ہونے والا نہیں جب تک وہ مقامی طور خود کوئی بندوبست نہ کر لیں اور اس کیلئے اس گاؤں کے پاس ایک مقامی فی میل ڈاکٹر کا ہونا لازم تھا۔
علاقے میں موجود واحد بی ایچ یو نے چند سال پہلے بھی ایک ایل ایچ وی ہائیر کی تھی، مگر وہ کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پر چلی گئی اور یوں پورے علاقے کی خواتین کا دارومدار دوبارہ روایتی عطائی خواتین یا بحالت مجبوری مرد ڈاکٹروں پر موقوف ہوا، وقت گزرتا گیا اور ضرورت شدت اختیار کرتی گئی۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک تازہ ہوا کا جھونکا قدرت نے بھیجا اور اس علاقے کی عوام کی ضرورت کو قبولیت بخشی، ایک نئی فارغ التحصیل ڈاکٹر جو حال ہی میں لندن سے آئی تھی، وہاں سے اس عجیب و غریب گاؤں کی قسمت بدلنے کیلئے اپنی خدمات دینے کا پکا ارادہ باندھا، ہسپتال سٹاف نے اس غیر معمولی واقعے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحبہ کو مشورہ دیا کہ جاب کنٹریکٹ پر دستخط کرنے سے پہلے ذرا ہسپتال کا محل وقوع اور متعلقہ رہائشی علاقہ گھوم آئیں تاکہ توقعات کے مطابق ایک دو دن میں واپسی کا ٹکٹ کرلیں اور اس گاؤں کے ابدی زبوں حالی کو یوں ہی چھوڑ جائیں ــــــــــ مگر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ڈاکٹر صاحبہ نے ایک سماج سیوک کے طور پر تمام تر چیلنجز کا سامنا کرنے کی ہمت کی اور موجودہ سٹاف کو اپنا اوتھ دکھا کر یہ باور کرایا کہ ہم انسانوں کی خدمت کا قسم کھا کر ڈگری وصول کر چکے ہیں اور ہمیں یہ خدمت اب ثابت کرنی ہوگی۔
پہلے ہی دن جب وہ علاقے کو دیکھنے کی عرض سے روانہ ہوئی تو راستے میں سیکیورٹی فورسز نے حالات کی خرابی کے باعث کسی کو جانے نہ دیا، مجبوراً ڈاکٹر صاحبہ واپس گھر چلی گئی۔ اگلے دن متعلقہ علاقے میں داخل ہوتے ہی روڈ پر کچھ مسلح افراد نمودار ہوئے جنہوں نے ناکہ بندی لگائی تھی اور گاڑیوں کی تلاشی لے رہے تھے۔ یہ منظر اس نئے علاقے میں دہشت اور خوف کا پہلا جھٹکا تھا، اس جیسے پرخطر راستوں، سخت حالات، سیکیورٹی خدشات اور رہائش کے بنیادی سہولیات جیسے انٹرنیٹ، ٹرانسپورٹ اور بازار وغیرہ کی عدم دستیابی کے باوجود ڈاکٹر صاحبہ کا اس جاب کے لئے ہاں کرنا بہت بڑی ہمت کا کام تھا جسے جس قدر سراہا جائے کم ہے۔
ان سب واقعات کے باوجود جب ڈاکٹر صاحبہ نے اپنی سروس شروع کر دی تو کچھ لوگوں نے کفرانِ نعمت کر کے چہ مگوئیاں شروع کی، ڈاکٹر صاحبہ کے متعلق غلط پراپیگنڈا کر کے وہ یہ قطعی برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ ایک عورت کیونکر ایسی خودمختار ہو سکتی ہے۔
خیر جلد ہی ایک ایسے واقعے نے اُن سب لوگوں کی آنکھیں کھول دی جب ان کے گھر میں ایک ایسی ایمرجنسی واقعہ ہوئی جو علاقے میں موجود کوئی عطائی خاتون حل کرنے کا سکت نہیں رکھتی تھی، ایک حاملہ خاتون جو اپنی صحت کے حوالے سے اسقدر شدید صورت اختیار کر گئی جس کا فوری ڈلیوری کروانا ہی واحد حل تھا۔ بصورت دیگر دونوں زچہ بچہ کی زندگی خطرے میں پڑ سکتی تھی۔
ایک طرف خراب سڑک کی وجہ سے اسے پشاور پہنچانا ممکن نہ تھا تو دوسری جانب پورے گاؤں میں اس ڈاکٹر صاحبہ کے علاوہ کوئی نہیں تھا جو یہ کام سر انجام دے سکے حالانکہ اس وقت بی ایچ یو میں ڈلیوری کی اجازت بھی نہ تھی مگر حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے جب ڈاکٹر صاحبہ نے ڈلیوری کا فیصلہ کیا اور تمام علاج ڈاکٹر صاحبہ کے ہاتھوں خیریت سے ہوا تو اس دن گاؤں کے لوگوں میں اطمینان کا ایک الگ منظر تھا۔
یہ وہ وقت تھا جب لوگوں نے ڈاکٹر صاحبہ کی خدمات کے عوض ان کو قبولیت بخشی، انہوں نے محسوس کیا کہ اس گھٹن زدہ معاشرے میں گھر سے دور ایک اکیلی خاتون نے اس ارادے سے یہ کہہ کر کام کی شروعات کی کہ اگر وہ پہل نہ کرے تو آخر کون کرے گا! کسی نے تو شروعات کرنی ہی ہوگی، ان کے والدین کو بھی سلام ہے جنہوں نے اپنی اولاد کو ایسی عظیم تربیت دلائی۔
جب کچھ وقت گزرا تو خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ حشرات کی ایک بڑی قسم جسے ہم پشتو میں "غونڈل” کہتے ہیں، نے ڈاکٹر صاحبہ کے کمرے میں نمودار ہو کر خوف کا وہ منظر پیدا کیا گویا کسی دشمن ملک کا جاسوس کسی ہائی سیکیورٹی جگہ میں گھس آیا ہو جسے چیختے چلاتے ہوئے بالآخر مار گرایا گیا۔
کچھ سال بعد ڈاکٹر صاحبہ نے اپنی مزید تعلیم کیلئے دوبارہ برطانیہ کیلئے اپلائی کیا جہاں وہ اپنے شعبے کی سپیشلائزیشن میں عملی تعلیم حاصل کر سکیں، جس کا رزلٹ ایک مہینے بعد آیا، ٹیسٹ ایک دم اچھے نمبروں سے پاس تھا اور آئندہ ہفتے موصوفہ اعلی میڈیکل تعلیم اور پریکٹس کے لئے لندن جارہی تھی، اس دن گاؤں والوں کے ملے جلے جذبات تھے۔ جب ڈاکٹر صاحبہ نے گاؤں والوں کو اپنی اگلی منزل کا زکر خیر کیا، ایک طرف اگر گاؤں والے ڈاکٹر صاحبہ کی کامیابی پر خوش تھے تو دوسری جانب وہ سب ان کی رفاقت کی کمی محسوس کرنے پر افسردہ بھی تھے۔
سنا ہے آج پچیس سال بعد تیراہ کے اسی گاؤں میں "ملالہ آفریدی” ڈاکٹر لگی ہوئی ہے جس کی پیدائش اسی ڈاکٹر کے ہاتھوں ہوئی تھی جسے ان کی ماں نے ڈاکٹر صاحبہ کو خراج تحسین پیش کرنے اور ان کا شکریہ ادا کرنے کی خاطر بچی کا نام ڈاکٹر صاحبہ کے نام پر رکھا۔