بلاگزعوام کی آواز

کیا ہمارے معاشرے میں سنگل والدین ہونا مشکل ہے؟

ایزل خان

ازدواجی زندگی ایک خوبصورت سفر ہے، جس کی شروعات ہر جوڑے اس امید کے ساتھ کرتے ہیں کہ ان کی زندگی خوشگوار اور کامیاب ہوگی۔ وقت کے ساتھ ناراضگیاں پیدا ہوتی ہیں لیکن انہیں گفت و شنید سے حل کیا جا سکتا ہے۔ بدقسمتی سے بعض اوقات حالات اتنے کشیدہ ہو جاتے ہیں کہ دونوں فریق علیحدگی پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

وجوہات مختلف ہوتی ہیں؛ بات چیت نہ ہونا، اعتماد کا فقدان، یا چھوٹے مسائل کو نظر انداز کرنا، جو رفتہ رفتہ ایک بڑے خلا میں بدل جاتے ہیں۔ مالی مسائل بھی ازدواجی زندگی کو متاثر کرتے ہیں۔ اگر شوہر کم کماتا ہے تو بیوی کا دوسروں سے موازنہ شروع ہو جاتا ہے، اور اگر آمدن ہو بھی تو خرچ کا غیر متوازن انتظام مسائل کو جنم دیتا ہے۔ کچھ گھرانے خاندان، دوستوں یا معاشرتی دباؤ کی وجہ سے بکھر جاتے ہیں، باوجود اس کے کہ میاں بیوی اپنی طرف سے پوری کوشش کرتے ہیں۔

ایسے حالات میں بچوں پر سب سے زیادہ اثر ہوتا ہے۔ والدین کی علیحدگی کے بعد بچے یا ماں کے ساتھ ہوتے ہیں یا باپ کے حصے میں آتے ہیں۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے: کیا سنگل پیرنٹ بن کر زندگی گزارنا ہمارے معاشرے میں مشکل ہے؟ جواب ہے: جی ہاں، یہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں ایک چیلنج ہے۔ پاکستان میں اس کا سامنا سماجی بدنامی، مالی پریشانی اور قانونی پیچیدگیوں کی صورت میں ہوتا ہے، جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں تربیت و روزگار کا توازن رکھنا سنگین مسئلہ بن جاتا ہے۔

ایک اور اہم سوال یہ ہے: کیا سنگل والدین دونوں کردار ادا کر سکتے ہیں؟ نہیں، کیونکہ بچوں کو والدین کی محبت، تربیت اور رہنمائی کی متوازن ضرورت ہوتی ہے۔ ان بچوں کی سوچ بھی عام بچوں سے مختلف ہوتی ہے کیونکہ وہ کم عمری میں زندگی کے سخت تجربات سے گزرتے ہیں، جس سے وہ جلد بالغ اور خود مختار بن جاتے ہیں۔

پھر سوال یہ ہے کہ علیحدگی سے پہلے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اگر ذمہ داریاں آدھی آدھی بانٹ لیں تو بچے محرومی سے بچ سکتے ہیں؟ والد یا والدہ اگر کسی وقت 50 فیصد نہ نبھا سکیں، تو دوسرا 70 فیصد نبھائے، کچھ نہیں ہوتا۔ بچوں کی خاطر ہم یہ قربانی دے سکتے ہیں۔ عدالتوں کے چکر، اسکول کے پروگرام، مالی بوجھ، کیا یہ سب کسی ایک کے لیے آسان ہیں؟ نہیں! مگر اگر دونوں اپنی ذمہ داری قبول کریں تو زندگی آسان ہو سکتی ہے۔

شادی ایک خوبصورت بندھن ہے۔ اختلافات آئیں گے، کیونکہ دو مختلف انسان ایک چھت تلے زندگی گزار رہے ہوتے ہیں، مگر مسئلوں کا حل بات چیت اور برداشت ہے، نہ کہ جدائی۔ اپنی شریکِ حیات کی خوبیوں اور خامیوں کو قبول کریں۔ اگر تلخی ہو بھی، تو بات کریں، حل نکالیں، بچوں کے لیے مثبت مثال بنیں۔ ظلم نہ کریں اور نہ برداشت کریں۔ ہم سب اپنی آنے والی نسل کو بہتر مستقبل دے سکتے ہیں، بس نیت، برداشت اور شعور کی ضرورت ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button