نکاح کا اندراج نہ کرنا: وراثت، نسب اور قانونی حیثیت جیسے سنگین مسائل کا سبب

سعدیہ بی بی
یہ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے۔ جب شادی میں موجود تمام افراد کے چہرے خوشیوں سے تمتما رہے تھے، مہمانوں کی باتوں، ہنسی مذاق اور مبارک بادوں سے ماحول بہت خوشگوار نظر آرہا تھا۔ دولہے کی والدہ خاص طور پر بہت خوش نظر آرہی تھی۔ ان کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ تھی، جیسے وہ کوئی بڑی کامیابی حاصل کرنے والی ہوں۔ وہ بار بار کن اکھیوں سے مردانہ بیٹھک کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ ان کی نظریں کسی خبر کی منتظر تھیں کہ وہاں سے کوئی آئے اور خوشخبری سنائے کہ نکاح ہونے لگا ہے تاکہ وہ فوری طور پر اپنی بہو اور بیٹے کو بیاہ کر اپنے گھر لے جا سکیں اور اپنے بیٹے کی نئی زندگی کی شروعات اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتے دیکھیں۔ ان کے لیے یہ لمحے زندگی کے سب سے قیمتی لمحے تھے، جن کا وہ برسوں سے خواب دیکھتی آئی تھیں۔
اسی اثنا میں نکاح خواں نے رجسٹر نکالا اور کوائف درج کرنا شروع کر دیئے۔ پہلے نکاح خواں نے دولہا اور دلہن کے شناختی کارڈ مانگے، اس پر لڑکی کے باپ نے بتایا کہ انہوں نے ابھی تک اپنی بیٹی کا شناختی کارڈ نہیں بنوایا۔ نکاح خواں نے اس پر جواب دیا کہ ” تو پھر فارم ب لے آئیں۔ فارم ب لایا گیا۔ نکاح خواں نے تفتیش کے ساتھ بار بار فارم ب پڑھا اور کہا کہ یہ نکاح نہیں ہو سکتا کیونکہ لڑکی کی عمر 16 سال ہے۔ یہ بات سب کے لیے کافی حیران کن تھی کہ ایک نکاح خواں کیسے اس بنیاد پر نکاح پڑھانے سے انکار کر سکتا ہے۔” اس تقریب میں موجود تمام مرد اور خواتین پریشان دکھائی دینے لگے اور ایسا لگتا تھا جیسے پورے ماحول نے غم کی چادر اوڑھ لی ہے۔
وہاں پر موجود چند افراد نے نکاح خواں سے پوچھا کہ "تو تمہیں اب زیادہ فیس چاہیئے۔ ایسے کہو نہ کہ مہنگائی ہو گئی ہے اور تمہیں بھی پیسوں کی ضرورت ہے۔ تم نکاح پڑھاؤ ہم زیادہ پیسے دیں گے” تاہم نکاح خواں اٹل رہا اور اس نے کہا کہ 18 سال سے کم عمر بچوں کی شادی میں نہیں کروا سکتا اور اپنا بستہ باندھ کر جانے لگا تو زبردستی ان کو بٹھایا گیا اور کہا گیا کہ نکاح پڑھائے بغیر نہیں جانے دیں گے۔
تقریب میں موجود بزرگ افراد نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا کہ ‘ کوئی حل نکالو ہم تمہیں اچھا خاصا معاوضہ دیں گے ‘ اس کے بعد نکاح خوان نے ایک سادہ کاغذ لیا، دولہا اور دلہن کا نام لکھا اور شرعی نکاح پڑھانا شروع کر دیا۔ اسی طرح بچوں کی شادی ہوگئی اور پھر سے خوشیوں کے شادیانے بجنے لگے۔ نکاح خوان نے 10 ہزار لیے اور چلتے بنے اور جاتے جاتے دولہا کے والد کو کہا کہ ‘ دو سال بعد میرے پاس آنا میں اپنے رجسٹر اور یونین کونسل میں نکاح رجسٹر کروا دوں گا’
جدید دور سے قبل پرانے وقتوں میں نکاح کی رجسٹریشن نہیں ہوتی تھی۔ لیکن جب سے پاکستان کے لوگوں میں پڑھنے لکھنے کی وجہ سے شعور آیا ہے، تب سے رجسٹریشن شروع ہوئی ہے۔ پاکستان کی آب و ہوا کی وجہ سے لڑکیاں جلدی جوان ہوجاتی ہیں جس کی وجہ سے ان کے ماں باپ اپنی بچیوں کی شادیاں جلدی کر دیتے ہیں۔ عام طور پر بچیوں کی والدین اس طرح کی شادیوں میں مذہب کی اڑ لیتے ہیں اور شادی کو” شرعی شادی ” قرار دیتے ہیں۔
بعض جگہ پر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ والدین پیسے لے کر بھی اپنی بچیوں کی جلدی شادی کر دیتے ہیں۔ تعلیم کی کمی کی وجہ سے وہ اس طرح کی شادیوں پر مائل ہوتے ہیں۔ جب سے حکومت کی طرف سے شادی کی عمر بڑھائی گئی ہے تب سے یونین کونسلوں میں شادیوں کی رجسٹریشن کی شرح میں کمی واقع ہوئی ہے۔
درج ذیل اس کے چند اہم نقصانات ہیں: قانونی حیثیت سے عدالت میں نکاح کو ثابت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ بیوی کو حقِ وراثت، حقِ نان و نفقہ اور بچوں کی قانونی حیثیت کے لیے مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ شوہر یا بیوی میں سے کوئی بھی انکار کرسکتا ہے کہ نکاح ہوا تھا، اور اس کے ثبوت میں دشواری ہو سکتی ہے۔
خواتین کے حقوق متاثر ہوتے ہیں۔ اگر نکاح ثابت نہ ہو تو عورت حقِ مہر اور طلاق کے بعد عدت کے حق سے محرام ہو سکتی ہے۔ نکاح نامہ نہ ہونے کی صورت میں بچوں کا ” جائز ” ہونا چیلنج کیا جا سکتا ہے، اور ان کی شناختی دستاویزات ( ب فارم، شناختی کارڈ ) کے حصول میں مشکلات آسکتی ہیں۔
اگر طلاق یا خلا کا معاملہ ہو تو نکاح نامہ کا اندراج نہ ہونے پر قانونی کاروائی رک سکتی ہے۔ بیوی یا شوہر کو عدالت میں اپنے حقوق کے لیے سخت قانونی جنگ لڑنی پڑ سکتی ہے۔ بعض اوقات بینکنگ اکاؤنٹس کھلوانے، ویزا حاصل کرنے یا وراثت لینے کے لیے نکاح نامہ درکار ہوتا ہے۔ اندراج نہ ہونے پر یہ سہولیات حاصل کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔
نکاح کا اندراج کروانا شرعی، قانونی اور سماجی طور پر بہت ضروری ہے۔ یہ صرف ایک رسمی کاروائی نہیں بلکہ مرد و عورت اور ان کے خاندانوں کے حقوق کے تحفظ کا ایک اہم ذریعہ ہے، اور بعد میں پیدا ہونے والے تنازعات سے بھی بچاتا ہے۔ نکاح کا اندراج نہ کرنا بظاہر ایک معمولی بات لگ سکتی ہے، مگر اس کے سنگین نقصانات ہو سکتے ہیں۔ اس لیے نکاح خواں کو چاہیئے کہ صرف پیسوں کے لیے کام نہ کرے، بلکہ ہر نکاح کو دینی، اخلاقی اور قانونی ذمہ داری سمجھ کر انجام دے۔