بلاگزعوام کی آواز

ٹک ٹاک، غیرت اور قتل: شہرت کی بھینٹ چڑھتی لڑکیاں اور معاشرتی منافقت

ایزل خان

آج کل بہت سے نوجوان گھر بیٹھے سوشل میڈیا کے ذریعے پیسے کماتے ہیں، جہاں ہر کسی کا اپنا ہنر اور کانٹینٹ ہوتا ہے جو انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا سکتا ہے۔ تاہم، اس میدان میں کچھ نوجوان ایسے بھی ہیں جو کسی ہنر یا کانٹینٹ کے بغیر، محض اپنے موبائل کے کیمرے کے ذریعے ٹک ٹاک پر وقت ضائع کرتے ہیں۔ وہ فضول باتیں کرتے ہیں، اور عوام کو گمراہ کرنے میں ملوث ہوتے ہیں۔

اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کئی مہذب نوجوان لڑکے، لڑکیاں تناؤ اور ذہنی دباؤ میں مبتلا ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کی فیملیز انہیں اس کی اجازت نہیں دیتی اور وہ ان چند گمراہوں کی وجہ سے متاثر ہو چکے ہوتے ہیں۔ لیکن آج کل کچھ عرصے سے ایک ایسا سلسلہ چل رہا ہے جہاں ہر دوسرے دن کسی انفلوینسر یا ٹک ٹاکر کو غیرت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے یا نامعلوم افراد کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ اس پر میرے ذہن میں چند سوالات اُبھرتے ہیں۔

جب یہ لڑکیاں ابتدا میں ویڈیوز اپلوڈ کرتی ہیں، کیا ان کی خاندان والے انہیں نہیں دیکھتے؟ کیوں نہیں روک پاتے؟ اور یہ کہ غیرت کے نام پر صرف لڑکیاں ہی کیوں نشانہ بنتی ہیں؟ فحاشی اور بیہودہ لائف اور ویڈیوز تو لڑکے بھی پروموٹ کرتے ہیں، مگر لڑکوں کو غیرت کے نام پر کیوں قتل نہیں کیا جاتا؟ اگر لڑکی کے اقدامات سے ماں باپ کی عزت متاثر ہوتی ہے، تو لڑکے کے باعث کیا ماں باپ کی عزت محفوظ رہتی ہے؟ ہم کیوں ہر مسئلے کا حل صرف قتل کرنے میں تلاش کرتے ہیں؟ اگر ابتدا سے ہی اجازت نہ دی جاتی، تو کیا وہ خود سے یہ سب کر پاتی؟ شروع میں خاندان والے بھی شاید لڑکی کو پیسہ کمانے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔

اس بات کو مدِ نظر رکھے بغیر کہ باہر کی دنیا میں کتنے لوگ موجود ہیں جو صرف موقع کی تلاش میں ہیں۔ اب یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ آیا لوگ ان قتلوں کی حمایت کرتے ہیں یا نہیں۔ حال ہی میں ثنا یوسف کے قتل کی خبریں سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھی۔ میں نے کمنٹس دیکھیے، تقریباً 20 سے 30 فیصد لوگ ان کے قتل سے خوش نہیں تھے اور اس کی حمایت نہیں کر رہے تھے، جبکہ باقی 80 اور 70 فیصد لوگ کہتے تھے کہ اچھا ہوا، یہ سلسلہ ختم نہیں ہونا چاہیئے۔ میں خاموشی سے دیکھ رہی تھی تو مجھے اپنی استاد کی بات یاد آئی جو انہوں نے 2019 میں مجھے کہی تھی، جب میری پہلی کتاب شائع ہوئی تھی اور مختلف چینلز سے میرے انٹرویوز آنے شروع ہوئے۔

میں نے دو چینلز کو انٹرویوز دے دیئے، باقی جتنے لوگ رابطہ کرتے تھے، میں نے انکار کر دیا۔ انکار کی وجہ یہ تھی کہ میں نہیں چاہتی تھی کہ اس دلدل میں پھنس جاؤ، مجھے لکھنا ہے، اپنے کام پر فوکس کرنا ہے۔ روزانہ انٹرویوز دینا، شاید میں شہرت کی آگ میں جل جاؤں اور اپنے مقصد سے پیچھے ہٹ جاؤں، جو میں نہیں چاہتی۔ اس وقت میں نے یہ بات اپنی استاد سے شیئر کی، کہ میں نے انٹرویوز دینے سے انکار کر دیا، کیا یہ صحیح ہے یا نہیں؟ انہوں نے مجھے حوصلہ دیا اور ایک بہت اچھا پوائنٹ بتایا کہ آج کل کے دور میں تقریباً ہر فرد کے پاس موبائل فون موجود ہے اور فیسبک، ٹک ٹاک، اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اکاؤنٹس بنے ہوئے ہیں۔

ان میں سے اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو شاید تعلیم یافتہ نہیں ہیں، کچھ بچے اور بچیاں ہیں، اور کچھ ایسے افراد ہیں جو ہماری سوچ یا نظریات سے اختلاف رکھتے ہیں۔ کچھ لوگ تو بالکل یہ نہیں جانتے کہ کیسے گفتگو کریں یا تبصرہ کریں۔ جو لوگ تعلیم یافتہ ہیں اور شعور رکھتے ہیں وہ ان غیر ضروری باتوں پر اپنا وقت ضائع نہیں کرتے کہ ہر کسی کی ویڈیو پر منفی کمنٹس کریں بلکہ اپنے مقاصد پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔

اصل لوگ وہ ہوتے ہیں جو ہمارے ساتھ 20-30 فیصد ہم خیال ہوتے ہیں، باقی لوگوں کی فکر نہیں کرنی چاہیئے۔ نقطہ یہ ہے کہ اکثر 70-80 فیصد لوگ جو ان غیر ضروری چیزوں اور ویڈیوز کو سپورٹ کرتے ہیں، جس کا کوئی کانٹینٹ نا ہوں ابتدا میں یہی لوگ لائیک، فالو، اور انباکس میں پیغامات بھیجتے ہیں۔ وہ پورا دن ان لڑکیوں کے اکاؤنٹس کی تازہ ترین ویڈیوز یا لائیو سٹریمنگ کا انتظار کرتے ہیں۔ اسے بتاتے ہے کہ آپ بہت اچھا کرتی ہو،ہمیں پسند ہوں،جب غیرت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے تو پھر شاباش بھی دیتے ہے کہ بہت اچھا کیا یہ منافقت نہیں اور کیا ہے؟

خدا کے واسطے کچھ خوف کریں اور ہر انسان اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھے، اپنی غلطیوں کو سدھارنے کی کوشش کرے، درندے نہ بنیں بلکہ انسانیت اپنائیں۔ تبصرہ کرنے سے پہلے سوچیں کہ جو لکھ سکتے ہیں اس میں کیا معنویت ہے، اگر سمجھ نہیں آتی تو کچھ بھی نہ لکھیں۔ اپنا وقت ضائع نہ کریں اور معاشرے کے ناسور نہ بنیں۔ گھر کی لڑکیاں ہوں یا باہر کی، سب کی عزت اور محافظ بنیں، کبھی بھیڑیا نہ بنیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button