غریب رشتے داروں سے خاندان والوں کی نفرت اتنی کیوں؟

رعناز
ہمارے معاشرے میں اکثر ایک بات دیکھی جاتی ہے کہ اگر کسی خاندان کے پاس پیسے کم ہوں، یا ان کی زندگی دوسرے رشتے داروں کے مقابلے میں تھوڑی مشکل ہو، تو لوگ ان سے دور ہونے لگتے ہیں۔ ان کی عزت کم کرنے لگتے ہیں، اور بعض تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو انہیں اپنے برابر سمجھنے سے بھی انکار کر دیتے ہیں۔ یہ سب کچھ دیکھ کر دل دکھتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف غریب ہونا اتنی بڑی "غلطی” ہے کہ اس کی سزا ساری زندگی ملے؟
ہمارے بڑوں نے ہمیشہ کہا کہ عزت پیسوں سے نہیں، کردار سے ملتی ہے۔ لیکن آج کل ایسا لگتا ہے کہ کردار کو کوئی نہیں دیکھتا، صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ تمہارے پاس کیا ہے، تمہارا لباس کیسا ہے، تمہاری گاڑی ہے یا نہیں، اور تم کہاں رہتے ہو۔ اگر کسی کا گھر چھوٹا ہو، یا ان کے بچے مہنگے سکول میں نہ جاتے ہوں، تو کئی رشتے دار ان سے ملنا بھی گوارا نہیں کرتے۔
یہ بات خاص طور پر اس وقت دل کو چبھتی ہے جب شادیاں یا بڑی تقریبات ہوتی ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ غریب رشتہ داروں کو ان دعوتوں میں بلایا ہی نہیں جاتا، یا اگر بلا بھی لیا جائے تو صرف "رسم” پوری کرنے کے لیے۔ پھر ان کو بٹھایا جاتا ہے کسی کونے میں، الگ تھلگ۔ ان سے سلام دعا تو کی جاتی ہے، مگر وہ محبت، وہ برابری کا سلوک کہیں نظر نہیں آتا۔
غریب خاندان کے افراد خود کو وہاں غیر محسوس کرتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے جیسے وہ کسی اور دنیا کے لوگ ہیں، جیسے ان کی موجودگی بس ایک "ضابطہ” ہے، حقیقت میں ان کا وہاں ہونا کسی کو پسند نہیں۔ کئی بار تو وہ خود ہی شرم کے مارے جلدی چلے جاتے ہیں، یا کسی خاموش کونے میں بیٹھے رہتے ہیں، دل میں ہزار باتیں لیے۔
ایسا کئی بار ہوتا ہے کہ جب کوئی خاندان مالی طور پر کمزور ہو تو دوسرے رشتہ دار ان کو دعوتوں میں بلانا چھوڑ دیتے ہیں، ان کے بچوں سے میل جول کم کر دیتے ہیں، اور ان کے ساتھ بات کرتے وقت ایسا لہجہ اختیار کرتے ہیں جیسے وہ کوئی بوجھ ہوں۔ حالانکہ غریب ہونا کسی کے بس کی بات نہیں۔ وقت سب کا بدلتا ہے، آج کوئی کمزور ہے تو کل وہی مضبوط ہو سکتا ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ جو آج خود کو بہت امیر سمجھ رہا ہے، کل کو وہی کسی سے مدد مانگ رہا ہو۔
جب کسی غریب خاندان کو بار بار نیچا دکھایا جائے، ان کی باتوں کو نظر انداز کیا جائے، اور ہر موقع پر انہیں احساس دلایا جائے کہ "تم ہمارے جیسے نہیں ہو”، تو ان کے دل میں احساسِ کمتری پیدا ہو جاتی ہے۔ خاص طور پر بچوں پر اس کا بہت برا اثر پڑتا ہے۔ وہ خود کو دوسروں سے کمتر سمجھنے لگتے ہیں، اور ان میں اعتماد کی کمی آ جاتی ہے۔ ایسے بچے بڑے ہو کر یا تو احساسِ محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں، یا پھر سخت دل بن جاتے ہیں۔
سب سے زیادہ افسوس تب ہوتا ہے جب کوئی رشتہ دار غریب خاندان کی مدد کرنے کی بجائے ان کا مذاق اُڑاتا ہے۔ مثلاً
"ارے یہ تو ہمیشہ مانگنے آ جاتے ہیں!”
"ان کے گھر جا کر کیا فائدہ، وہاں تو کچھ ملتا ہی نہیں!”
ایسی باتیں صرف دل دکھاتی نہیں، بلکہ رشتوں کی جڑیں کاٹ دیتی ہیں۔ رشتہ صرف خوشیوں میں نہیں، دکھ میں بھی نبھانا ہوتا ہے۔
اصل رشتہ وہی ہوتا ہے، جو مشکل وقت میں ساتھ دے۔ خوشی کے وقت سب ساتھ ہوتے ہیں، لیکن دکھ کے وقت جو کندھا دے، وہی اپنا ہوتا ہے۔ ایک غریب خاندان کو اگر صرف اس لیے الگ کر دیا جائے کہ وہ مالی طور پر کمزور ہیں، تو کیا وہ رشتہ صرف دنیا دکھاوے کے لیے تھا؟ رشتے دلوں سے بنتے ہیں، پیسے سے نہیں۔
ہمیں سب سے پہلے یہ سوچنا چاہیئے کہ ہر انسان کو عزت کا حق ہے، چاہے اس کے پاس کچھ ہو یا نہ ہو۔ اگر کوئی خاندان مشکل میں ہے تو ان سے ہمدردی کریں، نہ کہ ان کا مذاق بنائیں۔ اگر اللہ نے ہمیں نوازا ہے تو خاموشی سے کسی کی مدد کرنی چاہئیں، یہ سوچیں بغیر کہ ہم کوئی احسان کر رہے ہیں۔
ہمیں اپنے بچوں کو سکھانا چاہیئے کہ انسانیت سب سے بڑی دولت ہے۔ وہ کبھی کسی کو اس کے کپڑوں یا چیزوں سے نہ پرکھیں۔ ہمیں غریب رشتہ داروں سے میل جول رکھنا چاہیئے، انہیں تقریبوں میں بلانا چاہیئے، ان سے محبت سے بات کرنی چاہیئے۔
دنیا بہت تیزی سے بدل رہی ہے۔ آج جو غریب ہے، کل وہ خوشحال بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر آج ہم نے کسی کے دل کو توڑا، اس کی عزت نفس مجروح کی، تو وہ زخم کبھی نہیں بھرے گا۔ اور کیا پتا، کل کو ہمیں خود بھی کسی کا سہارا چاہیے ہو۔ رشتے دولت سے نہیں، دل سے جیتے جاتے ہیں۔ اگر ہم صرف ظاہری چیزوں کو دیکھ کر لوگوں کو تولنے لگے گے، تو اصل انسانیت کہیں پیچھے رہ جائے گی۔
آئیے، مل کر اس رویے کو بدلیں۔ ہر رشتے کو عزت دیں، ہر دل کو سکون دیں، اور ہر انسان کو انسان سمجھیں، چاہے وہ امیر ہو یا غریب۔