بلاگزعوام کی آواز

کیوں بیشتر شادیاں سکون کی جگہ عذاب بن جاتی ہیں؟ چونکا دینے والی وجوہات!

حمیرا علیم

شادی ایک جوا ہے۔ خواہ انسان اپنے بچپن کے دوست، کزن یا جوائنٹ فیملی میں رہنے والے کسی رشتے دار سے شادی کرے جو عادات شادی کے بعد کھل کر سامنے آتی ہیں، وہ ساری زندگی ایک ہی گھر میں رہ کر بھی معلوم نہیں ہوتیں۔ اس کامطلب یہ ہرگز نہیں کہ انسان کسی پر اعتبار ہی نہ کرے اور شادی ہی نہ کرے۔

بدقسمتی سے ہمارے ہاں رشتہ طے کرتے وقت زیادہ تحقیق کرنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی جاتی اور خاندان، ذات، تعلیم، دولت، شکل و صورت اور بعض اوقات بظاہر دین داری دیکھ کر رشتہ طے کر دیا جاتا ہے۔ لڑکے/ لڑکی کی شخصیت، سوچ، مزاج، نظریات اور جذباتی کیفیات کو جاننے کی کوشش ہی نہیں کی جاتی۔

قرآن شادی کا مقصد جوڑوں کا ایک دوسرے کے لیے باعث سکون ہونا بتاتا ہے اور ہمارے ہاں یہی سکون ہی شادی شدہ زندگی سے مفقود ہوتا ہے وجوہات ہر کیس میں مختلف ہوتی ہیں۔ رشتہ کرتے وقت چار چیزیں دیکھنے کا حکم ہے: شکل، مال، نسب اور دین۔ اور دین کو ترجیح دینا چاہیئے لیکن دین داری صرف عبادات تک محدود نہیں ہونی چاہیئے بلکہ اس کا عکس انسان کے کردار، گفتگو، برداشت، انصاف پسندی اور زندگی کے بڑے فیصلوں میں بھی نظر آنا چاہیئے۔

رشتہ طے کرنے سے قبل والدین بچوں کے بارے میں اچھی طرح چھان بین کر کے انہیں سب کی موجودگی میں گفتگو کا موقعہ دیں تاکہ وہ سماجی، دینی اور معاشرتی موضوعات پر گفتگو کرکے ایک دوسرے کے نظریات،  خیالات اور رحجانات کو سمجھ سکیں۔

بیوی کا جاب کرنا، پردہ، اولاد کی تعداد یا نہ ہونا، شادی شدہ زندگی کے لیے پلاننگ، ازدواج کے بارے میں توقعات، خاندان میں ہر رشتے کو اسکا مقام دینا، نفسیاتی الجھنیں، جسمانی بیماریاں اور دیگر موضوعات پر کھل کر بات کی جائے۔ قربت کے موضوع پر بھی مہذب انداز میں بات کی جائے۔ اگر ایک فریق جنسی طور پر زیادہ فعال ہو اور دوسرا اس کے برعکس، یا کسی کو جسمانی قربت سے جھجک، خوف یا نفرت ہو، تو یہ تعلق کے لیے زہرِ قاتل بن سکتا ہے۔

کیونکہ اکثر یہ مسئلہ بھی گھروں کے ٹوٹنے کا سبب بنتا ہے۔ لیکن ایک بات یاد رکھیے ماضی میں اگر آپ سے کوئی غلطی ہو چکی ہے تو اس کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں کہ جس عیب کو اللہ نے چھپا رکھا ہے اسے ظاہر کرنا دانشمندی نہیں۔ اس لیے ایک دوسرے سے ماضی کے بارے میں کچھ نہ ہوچھیے۔ نئی زندگی کی شروعات میں پرانی باتیں یاد کر کے تلخیاں نہ پیدا کریں۔ پورے خلوص اور وفاداری کے ساتھ رشتہ بنائیں اور نبھائیں۔

ایک پائیدار رشتہ صرف محبت سے قائم نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کے لیے مزاج کی ہم آہنگی لازمی ہے۔ یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ سامنے والا شخص تنہائی پسند ہے یا محفل کا شوقین؟ کیا وہ جذبات کا اظہار کھل کر کرتا ہے یا دل کی بات چھپا کر رکھتا ہے؟ کیا وہ ہر بات میں طنز شامل کرتا ہے یا صاف گوئی سے بات کرتا ہے؟

ان پہلوؤں کو جانچنے کے چند ملاقاتیں ہونی چاہئیں۔ جو غیر رومانوی، غیر جذباتی اور غیر رسمی ہوں۔ ان ملاقاتوں میں روزمرہ زندگی کی باتیں، ماضی کے دکھ، مستقبل کے خواب اور عام مزاج کو گفتگو کا حصہ بنایا جائے۔ سب سے اہم بات یہ دیکھی جائے کہ دوسرا فریق سننے والا ہے یا صرف بولنے والا؟ کیونکہ کامیاب شادی سننے اور سمجھنے والے لوگوں کے لیے ہوتی ہے خود پسندی کے مارے لوگوں کے لیے نہیں۔ اور اگر خدانخواستہ کسی نرگسیت پسند سے رشتہ جڑ جائے تو زندگی عذاب بن جاتی ہے۔

ہمارے ہاں شادی صرف دو افراد میں نہیں بلکہ خاندانوں میں ہوتی ہے۔اس لیے سماجی و معاشی فرق، رسوم و رواج کی پابندی، مذہبی ہم آہنگی کو شادی سے پہلے سمجھنا ضروری ہے۔ کیا لڑکی جوائنٹ فیملی میں ایڈجسٹ کر سکے گی، لڑکا اسے الگ رہائش مہیا کر سکے گا، اس کی کفالت کرنے کے قابل ہے کیونکہ شادی کے بعد سب سے زیادہ جھگڑے مالی معاملات پر ہوتے ہیں۔

اس لیے آمدنی، خرچ، بچت، قرض، یا فضول خرچی جیسے موضوعات پر کھل کر بات کریں۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ دوسرا فریق مالی طور پر کتنا مستحکم، سچا اور ذمے دار ہے۔ دونوں کو کوئی ذہنی جسمانی عارضہ ہو تو علاج پر آمادہ ہیں، غصہ پر کنٹرول کر سکتے ہیں یا نہیں،اگر ممکن ہو تو تھلیسیما، ایڈز، نفسیاتی عارضوں کے ٹیسٹ بھی کروا لیے جائیں تو بہتر ہو گا۔ کیاوہ والدین کے دباؤ کی وجہ سے شادی پر تیار ہوئے ہیں اور کسی  پرانےتعلق یا جذباتی وابستگی کی وجہ سے اپنے زوج کو اس کا جائز مقام اور حق دے سکیں گے یا نہیں؟

ایسا شخص جو عزت اور محبت نہ دے بوقت ضرورت جذباتی طور پر سہارا نہ بنے چاہے کتنا بھی دین دار، خوبصورت یا امیر ہو، ایک تکلیف دہ شریکِ حیات ثابت ہو سکتا ہے۔ کیا امیدوار دوسروں خصوصا ان لوگوں کے ساتھ عزت سے پیش آتا ہے جو اس سے کم درجے کے ہیں جیسے ہاوس ہیلپ، ویٹر، چوکیدار،  ڈرائیور وغیرہ۔ وہ ذہین اور علم والا ہے یا صرف ڈگری ہولڈر ہے۔کیونکہ ذہین، پڑھا لکھا اور دلیل پسند انسان ہی مکالمے سے مسائل حل کر سکتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں Premarital Counseling کو فضول، غیر ضروری یا مغربی فیشن سمجھا جاتا ہے۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ آج کی ازدواجی زندگی کے لیے ناگزیر ہے۔ جس طرح شادی سے پہلے جسمانی میڈیکل ٹیسٹ کیا جاتا ہے، ایسے ہی نفسیاتی سیشن بھی ہونا چاہیئے۔ یہ کوئی شرمندگی کی بات نہیں بلکہ ایک بہتر زندگی کے لیے اٹھایا گیا قدم ہے۔

شادی کی تیاریوں کو کپڑے، زیور، گھر، فرنیچر، ایونٹس کے انعقاد  تک محدود کرنے کی بجائے جذباتی اور ذہنی طور پر تیار ہونا چاہیے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ رشتہ طے کرتے وقت ہر معاملے میں سچ بولا جائے کچھ بھی چھپایا نہ جائے۔

تقدیر پر تکیہ کرنے سے پہلے تدبیر کرنا لازمی یے۔  اپنی بیٹیوں اور بیٹوں کے رشتے طے کرنے سے پہلے، صرف شکل، نماز یا نوکری نہ دیکھیں بلکہ ان کا ذہن، دل، خواب، مزاج، برداشت، اور رجحانات بھی پرکھیں۔ کیونکہ نکاح صرف جسمانی ملاپ کا نام نہیں زندگی بھر کا ساتھ ہے۔اور زندگی تبھی اچھی گزرے گی جب ساتھی محبت ، عزت کرنے والا اور خیال رکھنے والا ہو گا۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button