کیا پانچ پاؤں والے جانور کی قربانی جائز ہے؟

رانی عندلیب
عید الاضحیٰ کی آمد کے ساتھ ہی جانوروں کی خریداری کا سلسلہ تیز ہو جاتا ہے، اور ہر شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ایک خوبصورت اور صحت مند جانور قربانی کے لیے منتخب کرے۔ اس سال مردان کے رہائشی غفور خان نے ایک ایسا جانور خریدا جو نہ صرف اپنی جسمانی ساخت کی وجہ سے منفرد ہے بلکہ اس کی خریداری کے پیچھے ایک روحانی پہلو بھی کارفرما ہے۔ یہ جانور اپنی نوعیت کے لحاظ سے انوکھا اس لیے ہے کیونکہ اس کے پانچ پاؤں ہے، جو کہ عام طور پر کسی جانور میں نہیں پائے جاتے۔
اس سلسلے میں جب غفور خان سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس جانور کو صرف اس لیے خریدا کہ اس پر حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا نام مبارک دکھائی دے رہا ہے۔ ان کے مطابق، یہ نشان ان کے لیے باعثِ برکت یے اور انہوں نے اس جانور کو عقیدت کے جذبے سے خریدا۔ ان کا کہنا تھا کہ بازار میں اس جانور کی قیمت تقریباً تین لاکھ روپے تھی، لیکن چونکہ قصائی ان کا ذاتی دوست ہے، اس نے یہ جانور انہیں صرف دو لاکھ بیس ہزار روپے میں دے دیا۔
غفور خان کا ماننا ہے کہ یہ جانور ان کے لیے مالی اور روحانی دونوں حوالوں سے ایک خوش قسمت انتخاب ہے۔ ان کا اخلاص اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے اس جانور کی قربانی کو صرف رسم کے طور پر نہیں بلکہ عبادت اور نیکی کے جذبے سے خریدا ہے۔
جب کچھ لوگوں نے یہ سوال اٹھایا کہ پانچ پاؤں والا جانور کیا قربانی کے لیے شرعاً درست ہے؟ تو غفور خان نے بتایا کہ انہوں نے اس بارے میں مولانا عبدالوہاب صاحب سے مشورہ کیا۔ ا انہوں نے تصدیق کی کہ اگر جانور کے جسم میں اضافی عضو ہو تو اس کی قربانی جائز ہے، بشرطیکہ وہ عضو نقص نہ ہو بلکہ زائد ہو۔ ان کے مطابق، شریعت میں ناقص جانور کی قربانی منع ہے، لیکن اضافی عضو نقص کے زمرے میں نہیں آتا۔
یہ موقف درحقیقت کئی علما کی مشترکہ رائے پر مبنی ہے کہ جانور میں اگر کوئی زائد عضو ہو، تو وہ اس کی قربانی کو ناقابل قبول نہیں بناتا۔ یہی بات غفور خان کو مزید اطمینان دلاتی ہے کہ ان کا عمل درست اور شرعی دائرہ کار میں ہے۔
تاہم، اس مسئلے پر تمام علما متفق نہیں۔ مشہور عالم دین مفتی ضیاء اللہ شاہ نے اس معاملے پر ایک مختلف اور قدرے سخت موقف اختیار کیا۔ ان کے مطابق، شریعت نے قربانی کے لیے مخصوص جانوروں اور ان کی شرائط کا واضح تعین کر دیا ہے۔ اگر کوئی جانور پیدائشی طور پر ناقص ہو، جیسے پانچ ٹانگوں والا ہو، تو وہ فطری طور پر ایک جسمانی نقص کا حامل ہے اور اس کی قربانی جائز نہیں۔
مفتی صاحب کا کہنا ہے کہ دین اسلام میں قربانی صرف ان جانوروں کی جائز ہے جو قرآن و سنت سے ثابت ہوں: گائے، بیل، بکری، دنبہ، مینڈھا، اونٹ اور اونٹنی۔ ان جانوروں کے لیے بھی مخصوص شرائط ہیں، جیسے عمر، صحت، اور جسمانی تندرستی۔ کسی بھی جسمانی نقص، جیسے دانت کا ٹوٹا ہونا، دم کٹی ہونا، یا ضرورت سے زیادہ کمزور ہونا، قربانی کو غیر شرعی بنا دیتا ہے۔
بعض افراد یہ استدلال کرتے ہیں کہ اگر کسی جانور کے جسم پر "اللہ” یا "محمد” کا نام واضح طور پر دکھائی دے تو وہ جانور خاص ہو جاتا ہے، اور اس کی قربانی کرنا ایک روحانی فریضہ بن جاتا ہے۔ لیکن مفتی ضیاء اللہ شاہ اس دلیل کو بھی مسترد کرتے ہیں۔ ان کے مطابق، قربانی کا انحصار کسی نقش، تحریر یا جذباتی کیفیت پر نہیں بلکہ صرف اور صرف شرعی اصولوں پر ہے۔
شریعت عبادات میں اخلاص کے ساتھ ساتھ اصولوں کی بھی پابند ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی ذاتی خواہش یا نظریہ کو شریعت پر فوقیت دے تو یہ عمل دینی تحریف کے مترادف ہو سکتا ہے۔ قربانی ایک مقدس عبادت ہے، اور اسے جذبات، عقیدت یا علامات کی بنیاد پر انجام دینا شریعت کے مزاج کے خلاف ہے۔۔